تعلیم اور طب : زبانی جمع خرچ

0

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

وارانسی میں اکھل بھارتیہ شکشا سماگم میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے برطانوی نوآبادیاتی نظام تعلیم پر دو ٹوک تنقید کی اور ملک بھر کے ماہرین تعلیم سے درخواست کی کہ وہ ہندوستانی تعلیمی نظام کو تحقیق پر مبنی بنائیں تاکہ ملک کی معاشی اور سماجی ترقی میں تیزی آسکے۔ جہاں تک کہنے کا تعلق ہے، وزیراعظم نے بالکل درست کہا ہے لیکن موجودہ وزیراعظم اور سابقہ تمام وزرائے اعظم سے کوئی پوچھے کہ انہوں نے تعلیمی میدان میں کون سی ضروری اور انقلابی تبدیلیاں کی ہیں؟ گزشتہ 75 برس میں ہندوستان میں تعلیم کا ڈھانچہ وہی ہے جو تقریباً 200 سال قبل انگریزوں نے ہندوستان پر مسلط کیا تھا۔ ان کی تعلیم کا مقصد صرف جی حضور بابوؤں کی جماعت بنانا تھا۔ آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے لیڈر اس کا زندہ ثبوت ہیں۔ ملک کے کتنے لیڈر صرف ڈگری ہولڈر ہیں اور کتنے واقعی پڑھے لکھے اور دانشور ہیں؟ اسی لیے وہ نوکرشاہوں کی نوکری کرنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارے بیوروکریٹس بھی انگریز کی ٹکسال کے ہی سکے ہیں۔وہ خدمت نہیں، حکومت کے لیے کرسی حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں رسمی جمہوریت تو قائم ہے، لیکن حقیقت میں استعماریت ہمارے رگ و ریشہ میں سرایت کر گئی ہے۔ وزیراعظم فخر سے کہہ رہے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں اسپتالوں کی تعداد میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن ان سے کوئی پوچھے کہ ان اسپتالوں کی حالت کیا ہے اور ان میں کن لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات میسر ہیں؟ انگریزوں کا بنایا ہوا یہ طبی نظام اگر فائدہ مند ہے تو اسے ضرور قبول کیا جانا چاہیے، لیکن کوئی یہ بتائے کہ75 برس میں آیوروید، نیچرو پیتھی، ہومیو پیتھی، حکیمی-یونانی نظام طب میں کتنی ترقی ہوئی ہے؟ ان میں تحقیق کرنے اور ان کی لیبارٹریوں پر حکومت نے کتنی توجہ دی ہے؟ گزشتہ 100سال میں مغربی ایلوپیتھی نے تحقیق کے ذریعے اپنے آپ کو بہت آگے بڑھا لیا ہے اور ان کے مقابلے میں تمام روایتی علاج پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر ہماری حکومتیں تعلیم اور طب کی تحقیق پر زیادہ توجہ دیں اور ان دونوں بنیادی کاموں کو اپنی زبان میں مکمل کریں تو آنے والے چند ہی برس میں ہندوستان دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا ہو سکتا ہے۔ اگر تعلیم اور طب، دونوں سستی اور قابل رسائی ہوں تو ملک کے کروڑوں لوگ روزمرہ کی دھوکہ دہی سے تو بچیں گے ہی، ہندوستان جلد ہی سپرپاور اور پوری طرح خوشحال بھی بن سکے گا۔ دنیا میں جتنے بھی8 سے10ممالک طاقتور اور خوشحال سمجھے جاتے ہیں، اگر آپ ان کا باریک بینی سے مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ گزشتہ 100 برس میں ہی وہ ویسے بنے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی تعلیم اور طب پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔
(مصنف ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS