محمد مستقیم ندوی
جو ’’ شخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لئے اس کی کھیتی میں اضافہ فرما دیتے ہیں‘‘(الشوریٰ-20)۔دنیا انسان کے لئے بہت بڑی دولت اور بیش قیمتی سرمایہ ہے۔جہاں تک انسان کے وجود کا سوال ہے تو اس کا وجود تو دنیا میں آنے سے بہت پہلے عالم ارواح میں ہو چکا تھا۔لیکن انسان کی ارتقاء اور اس کی تکمیل دنیا کی محتاج تھی۔چنانچہ خالق کائنات دنیا کی بابت اپنے بندوں کی زبان سے اس حقیقت کااظہارکرتا ہے’’اے ہمارے رب ! تونے یہ سب کچھ بے مقصد تو پیدا نہیں کیا ہے‘‘(ال عمران-191)۔دنیا کا وجود در حقیقت انسانی وجود کے پلان کا ایک حصہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کوجو جوہر اور کمالات عطا کئے ہیں ان کا اظہار دنیا میں ہو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کی رعایت رکھتے ہوئے ان کو بروئے کار لانے کے لئے بہت سارے راستے اور آپشن کھول رکھے ہیں۔جن کو استعمال کر کے بڑے بڑے کارنامے انجام پاتے ہیں۔
دنیا کے ان تمام عظیم الشان کام کے لئے نہ تو عالم ارواح موزوں جگہ ہو سکتی تھی اور نہ ہی عالم آخرت میں اس کی گنجائش بنتی تھی۔۔لہذا دنیا انسان کی پہلی پسند تھی۔انسان کے قدم رکھتے ہی دنیا میں دھوم مچ گئی۔ سارے عالم کا نقشہ ہی بدل گیا۔ دنیا میں ایسا انقلاب برپا ہوا جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ایسی حیرت انگیز ترقیاں عمل میں آئیں جن کو دیکھ کر فرشتے بھی عش عش کرنے لگے۔دنیا کے تمام کام اور کسب معاش کے تمام ذرائع فطرت سلیم کے مطابق انجام پاتے رہے کیونکہ خالق نے دنیا کو اسی نیچر پر بنایا ہے لیکن جیسے ہی انسان نے فطرت سے بغاوت کی اور اس کے نظام میں دخل دینا شروع کیادنیا شرو فساد کی آماجگاہ بن گئی پھر ایسا لگنے لگا گویا دنیا ہی شر و فساد کی پیداوار ہے۔دنیا کا کوئی بھی واقعہ قدرت کی حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں۔ اس موقع پر اللہ نے انسان کی اعلیٰ اقدار اور اعلیٰ کوالٹی کا ٹسٹ لینا چاہا ہے جس کا اظہار خالق نے فرشتوں کے سامنے کیا تھااور فرشتوں نے اس بات کا اعتراف سجدہ کی شکل میں کیا۔
ہر انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے عقل وہوش دیا ہے خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کی اپنی زندگی کے یہی وہ محدود لمحات اور ساعات ہیںجو اس کے پاس ہیں لہذااسے چاہئے کہ وہ ان کو ایسے کام میں خرچ کرے جو حیات دوام کا ضامن ہوںاور ایسا کرکے ہی انسان یہ ثابت کرسکتاہے کہ دنیا اس کے لئے نعمت عظمیٰ ہے۔
انسان کی زندگی کے یہ سب سے قیمتی لمحات ہیں جب وہ اس ٹسٹ کو پاس کر کے اپنے اصلی مقصد کو پالیتا ہے۔اس بیلنس کو برقرار رکھنے کے لئے اللہ نے انسان کو اس کی زندگی میں خاص طور سے دو مقام پر تنبیہ کی ہے۔پہلی چیز جہاں انسان بالکل عاجز اور بے بس نظر آتا ہے وہ اس کی ناپائیدار زندگی ہے جس کی ایک پل بھر کی گارنٹی نہیں۔دوسرا وقت وہ ہوتا ہے جب اسے اپنی عجز اور درماندگی کا احساس ہوتاہے جب وہ اپنی خواہشات کی تکمیل میں دنیا کے دامن کو تنگ پاتا ہے۔انسان کی زندگی کے یہ دو موڑ ہیںجو اس کے لئے خاص طورپر درس عبرت ہیں۔ان مقامات پر عقلمند انسان اپنی زندگی کا از سرے نو جائزہ لیتا ہے۔اب اس کے لئے صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے جہاں وہ اپنے سارے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر سکتا ہے اور ابدی زندگی حاصل کر سکتا ہے جس کی ہمیشہ اس کو تلاش رہی ہے۔ہر انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے عقل وہوش دیا ہے خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کی اپنی زندگی کے یہی وہ محدود لمحات اور ساعات ہیںجو اس کے پاس ہیں لہذااسے چاہئے کہ وہ ان کو ایسے کام میں خرچ کرے جو حیات دوام کا ضامن ہوںاور ایسا کرکے ہی انسان یہ ثابت کرسکتاہے کہ دنیا اس کے لئے نعمت عظمیٰ ہے ۔qq