پیگاسس جاسوسی :جا نچ ضروری

0

ملک کی سیاست میں طوفان اٹھادینے والا پیگاسس اسپائی ویئر جاسوسی معاملہ روزبروز پیچیدہ ہوتاجارہاہے۔ حکومت کے مبہم موقف اورپارلیمنٹ میں اس پر بحث سے پہلوتہی بھی شبہات کو تقویت پہنچا رہی ہے۔ ایسا محسوس ہورہاہے کہ حزب اختلاف کے الزامات اور میڈیا کی رپورٹس درست ہیں۔آج سپریم کورٹ نے بھی جانچ سے متعلق درخواست پر پہلی سماعت میں ان ہی خدشات کا اظہار کیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اگر رپورٹس درست ہیں تو پیگاسس سے متعلق جاسوسی کے الزامات ’انتہائی سنگین نوعیت‘ کے ہیں۔ اس معاملے میں عدالت نے مرکزی حکومت کو تو سردست کوئی نوٹس جاری نہیں کیا ہے تاہم اگلی سماعت منگل تک مؤخر کرنے کے ساتھ ہی عرضی گزاروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنی درخواست کی نقول مرکزی حکومت کو بھی فراہم کریں تاکہ 10اگست کو نوٹس وصول کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے کوئی عدالت میں موجود رہے۔
پیگاسس اسرائیل ساختہ ایسا اسپائی ویئر یعنی سراغ رسی کا غیرقانونی نظام ہے جو کسی بھی محفوظ ترین موبائل فون، کمپیوٹر وغیرہ میں سرایت کرکے اس کے نہ صرف تمام مواد اکٹھا کرلیتا ہے بلکہ موبائل فون اور کمپیوٹر کے ذریعہ ہونے والی تمام حرکات و سکنات اور گفتگوکو محفوظ کرتا رہتاہے اور اسے دوسری جانب ٹرانسمیٹ بھی کرتا ہے۔ حزب اختلاف کا الزام ہے کہ حکومت نے اسرائیل کی پرائیویٹ کمپنی این ایس او سے اس اسپائی ویئر کی خریداری کی ہے اور اسے اپنے مبینہ دشمنوں کے ساتھ ساتھ دوستوں پر بھی نظررکھنے کیلئے استعمال کررہی ہے۔ جاسوسی کے اس معاملے میں ہر روز نت نئے انکشافات بھی ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں معاملہ کی سماعت کا آغاز ہونے سے عین قبل یہ بات سامنے آئی ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر کے توسط سے جن افراد کی جاسوسی ہورہی ہے، اس میں سپریم کورٹ کے جج حضرات، سپریم کورٹ کے رجسٹرار اور اربوں روپے کاگھوٹالہ کرکے ملک سے فرارہوجانے والے ملزم نیرو مودی جیسے ہائی پروفائل ملزمین کے وکلا حضرات بھی شامل ہیں۔یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعہ جاسوسی کے ممکنہ اہداف کی فہرست میں 300 تصدیق شدہ ہندوستانی موبائل فون نمبر شامل ہیں۔
جاسوسی کے اسی معاملے کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں ایڈیٹرزگلڈ آف انڈیا اور دیگر صحافی حضرات کی جانب سے 9الگ الگ درخواستیں دائر کی گئی ہیں جن کی آج چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس سوریہ کانت کی دو نفری بنچ نے پہلی سماعت کی۔ادھر ایوان میں حزب اختلاف بھی اس معاملے پر بحث کا مطالبہ کررہاہے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ اس کی تفتیش کرائی جائے یا پھر اس پر ایوان میں بحث ہی کرائی جائے۔حکومت کے اس رویہ کی وجہ سے پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس ہنگامہ کی نذر ہورہاہے۔
اسرائیلی کمپنی ’این ایس او‘ کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کے تحفظ اور استحکام کیلئے سائبر انٹلیجنس فراہم کرتا ہے اوراس سے دنیا بھر کی مختلف سرکاری ایجنسیاں فیض اٹھاتی ہیں۔اس کاسیدھا سادا مطلب یہ ہوا کہ یہ ادارہ حکومتوں کیلئے انٹلیجنس اتحادی کے طورپر کام کرتا ہے۔ اس کا بنایا ہوا اسپائی ویئر پیگاسس موبائل فون اور کمپیوٹر میں سرایت کرکے ہدف کی ہر نقل و حرکت اور گفتگو کو ریکارڈ کرتے ہوئے دوسرے مقام پر منتقل کرتا رہتا ہے۔اس ادارہ کے سافٹ ویئر کو اسرائیل کے سرپرست امریکہ نے بھی اپنے ملک میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔لیکن یہ ادارہ ہندوستان میں باقاعدہ کام کر رہا ہے اور ملک کی ممتاز شخصیات کی نجی اور گھریلو زندگی کو ریکارڈ کر رہا ہے۔تاہم حکومت یہ بتانے کو بھی تیار نہیں ہے کہ آیا اس نے این ایس او سے تیارکردہ اسپائی ویئر خریدا ہے یا نہیں۔
ایک ایسا اسپائی ویئرجو اسرائیل میں تیار ہوا ہو، این ایس او جیسے متعصب صہیونی گروپ نے فروخت کیا ہو اوروہ ہندوستان کی ممتاز شخصیات کی نگرانی کررہاہے تو اس سے بہت سے سوالات ابھرتے اور شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ جج، وکیل، سماجی کارکن، سیاست داں، انتہائی حساس نوعیت کے معاملات ہینڈل کرنے والے اعلیٰ سرکاری اور فوجی افسران،سپریم کورٹ کا رجسٹری دفتر جہاں انتہائی حساس نوعیت کے ریکارڈ ہوتے ہیں وہ بھی اگر نگرانی کی زد میں آجائیں تو پھر کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کو پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل ہے، اس کے پاس میڈیا اور سوشل میڈیا کی بھاری طاقت بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کا اخلاقی وقار روز بروز کم ہوتا جارہا ہے۔ اختلاف اور نفرت کو ہوا دے کر مختلف بنیادوں پر معاشرہ کی تقسیم کے الزامات تو لگتے ہی رہے تھے اب اپنوں اور پرایوں کی کن سوئیاں لینے کی حرکت بھی طشت ازبام ہورہی ہے۔اس معاملے میںاگر حکومت کا دامن صاف ہے تو اسے نہ تو ایوان میں بحث سے گریز کرنا چاہیے اور نہ ہی تفتیش کیلئے ایس آئی ٹی کی تشکیل میں رد وقدح ہونی چاہیے۔اس معاملے کی تفتیش کراکر نہ صرف حزب اختلاف کا منھ بند کیاجاسکتا ہے بلکہ حکومت اپنے اس اقدام سے عوام الناس میں بھی اپنی نیک نیتی اور پاکدامنی ثابت کرسکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS