انسانی خرابی کی بنیاد غفلت وعناد

0
Head2

محمد صابر حسین ندوی

انسان یکبارگی گناہ و عصیان کے کنویں میں نہیں گرتا، دفعتاً جرائم اور دل سوز دنیا کا باسی نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ اسے اس کی طرف دھکیلتے ہیں۔ یہ صرف انسانی خاصہ ہی نہیں بلکہ دنیا کا ایک عمومی قانون ہے۔ ہر چیز مرتے مرتے ہی مرتی ہے۔ معاشرے کا حسن، دوستوں کی دوستی، محبت میں ناچاقی اور وفاداری میں غداری، مضبوط تناور درخت کا کھوکھلا اور بے بودہ بن جانا، عالیشان عمارت کا بدصورت اور شکستہ ہوجانا، محلوں اور قلعوں کی عظیم ترین تعمیر کا کھنڈر میں بدل جانا، ترقی یافتہ شخص کا روبہ زوال ہوجانا غرض ہر ایک امر پر غور کیجئے۔ پتہ چلے گا کہ اس کے اسباب اور محرکات پچھلے کافی وقت سے چلے آرہے تھے لیکن لاپرواہی کی گئی۔ اپنی توجہ غیر ضروری امر پر لگا کر ایک اہم مسئلہ سے روگردانی کی گئی نتیجتاً ایک عظیم نعمت دور ہوتی چلی گئی۔ انسان کی تخریب کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اللہ تعالی نے توبہ کا دروازہ کھولا ہوا ہے تاکہ انسان اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرے، پشیمانی اور افسوس کے ساتھ رجوع کرے، مگر ہوتا یہ ہے کہ ایک شخص گناہ کرتا جاتا ہے، کرتا جاتا ہے اور بالآخر وہ اس میں لذت پانے لگتا ہے۔ اسے صحیح اور غلط کی تفریق رہتی ہی نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر کوئی متنبہ کرے تو اس کے سامنے ڈھٹائی اور عناد کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ وہ گویا فلاح اور خیر سے دور ہوتا جاتا ہے، پھر اسے توبہ کی توفیق نہیں ملتی۔ وہ اللہ تعالی کا سرکش اور نااہل بندہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ معاشرے کا ناسور اور اپنی غلطیوں پر ضد کرنے والا ،اپنی کوتاہیوں سے دوسروں کو نقصان پہنچانے والا اور رب العالمین کی نظر عنایت سے دھتکار ہوا بن جاتا ہے۔ بہت سے نفیس طبیعت اور اچھے اخلاق والوں کا حال یہی ہوتا ہے کہ وہ توبہ کرنے میں اتنی تاخیر کر دیتے ہیں کہ تب تک بہت کچھ بگڑ چکا ہوتا ہے۔ اگر وہ خوش نصیب رہا تو یقیناً کسی نہ کسی عمر میں اسے توبہ کی توفیق مل جاتی ہے لیکن تب تک اپنے پیچھے بہت سی پشیمانیاں چھوڑ جاتا ہے۔ اسی لئے انسان گناہ کرے تو توبہ بہرحال کرلے۔ اس موقع کا انتظار نہ کرے کہ کوئی خاص توجہ حاصل ہوگی تو ہی وہ توبہ کرے گا۔ خدا نخواستہ اس دوران اگر دل پر مہر لگادی گئی تو سب کچھ تباہ و برباد ہوجائے گا۔ اس لئے انتظار نہ کیجئے فوراً توبہ کیجئے۔

 بہت سے نفیس طبیعت اور اچھے اخلاق والوں کا حال یہی ہوتا ہے کہ وہ توبہ کرنے میں اتنی تاخیر کر دیتے ہیں کہ تب تک بہت کچھ بگڑ چکا ہوتا ہے۔ اگر وہ خوش نصیب رہا تو یقیناً کسی نہ کسی عمر میں اسے توبہ کی توفیق مل جاتی ہے لیکن تب تک اپنے پیچھے بہت سی پشیمانیاں چھوڑ جاتا ہے۔ اسی لئے انسان گناہ کرے تو توبہ بہرحال کرلے۔ اس موقع کا انتظار نہ کرے کہ کوئی خاص توجہ حاصل ہوگی تو ہی وہ توبہ کرے گا۔

مولانا وحیدالدین خان مرحوم’ ایک خطرناک صفت ‘ کے ضمن میں لکھتے ہیں ’’انسان کو استثنائی طور پر یہ صفت دی گئی ہے کہ اس کو ہر چیز میں ایک لذت (taste) کا احساس ہوتا ہے۔اس لذت کو ابتدائی درجے میں رکھا جائے تو فطرت کے عین مطابق ہو گا، اور اگر اس لذت کو لا محدود بنا دیا جائے تو اس سے ہر قسم کی برائیاں وجود میں آئیں گی۔ اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز جب آدمی کی زندگی میں داخل ہوتی ہے تو ابتداء میں وہ صرف لذت کے درجے میں ہوتی ہے۔ دھیرے دھیرے وہ عادت کی صورت اختیار کرتی ہے۔ پھر مزید ترقی کر کے وہ اڈکشن (addiction) بن جاتی ہے۔ اس کے بعد جو اگلا مرحلہ آتا ہے، وہ ہے پوائنٹ آف نو ریٹرن۔ جب یہ آخری مرحلہ آ جائے تو آدمی کی اصلاح عملا ناممکن ہو جاتی ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن میں توبہ قریب (4:17) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ جب اس سے کوئی خطا سرزد ہو تو وہ بلا تاخیر توبہ قریب (speedy repentance) کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ فوراً اپنا محاسبہ کرے، اپنے آپ کو بدلے، اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تعمیر نو کرے۔ غلطی کرنے کے بعد آدمی کو چاہئے کہ وہ کل کا انتظار نہ کرے، بلکہ وہ آج ہی پہلی فرصت میں اس کی تلافی کرے۔ فطرت کے قانون کے مطابق یہی طریقہ صحح طریقہ ہے۔ آدمی کو کبھی بھی توبہ بعید کا انتظار نہیں کرنا چایئے۔ اس لئے کہ غلطی کے پیچھے ہمیشہ کوئی لذت شامل رہتی ہے، مادی لذت یا ذہنی لذت۔ اگر آدمی غلطی کے بعد فوراً اس کی اصلاح نہ کرے تو اس کے بعد اس کے اندر اس لذت پسندی کی بنا پر ایک نفسیاتی عمل شروع ہو جائے گا۔ لذت دھیرے دھیرے عادت بنے گی۔اس کے بعد وہ اڈکشن بن جائے گی اور پھر وہ وقت آ جائے گا جب کہ آدمی کے لیے ابتدائی حالت کی طرف واپسی ناممکن ہو جائے‘‘ (الرسالہ، مارچ 2015)۔qq

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS