دنیا میں معاشی بھول بھلیا

ممالک کیلئے ہر طرف راستے ہی راستے ، لیکن معلوم نہیں کہ ان میں سے کون سا راستہ منزل تک پہنچائے گا اور کون سا گہری الجھن میں پھنسا دے گا

0

آلوک جوشی

دنیا کہاں جارہی ہے، سمجھنا بہت مشکل ہے۔ خاص طور پر معیشت کی نظر سے۔ پہلے کہا گیا کہ کورونا بحران سے ابھرنے کی کوشش میں مصروف دنیا کی معیشت ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں، جنہیں ڈیلٹا ویریئنٹ کا اثر ختم ہوتا نظر آرہا ہے اور وہ معاشی ترقی، یعنی جی ڈی پی بڑھنے کی رفتار تیزی ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ تو دوسری جانب وہ ہیں، جنہیں لگتا ہے کہ اول تو بیماری ابھی گئی نہیں ہے اور اگر مان بھی لیں کہ وبا کمزور پڑگئی ہے، تب بھی اس نے جو زخم دیے ہیں، ان کا جلد بھرنا مشکل ہے۔
لیکن آج حال یہ ہے کہ جدھر دیکھیں، ادھر سے ایک الگ طرح کا اشارہ نظر آتا ہے۔ کچھ ویسا احساس ہے، جیسے آپ کسی بھول بھلیا میں پھنس گئے ہوں، ہر طرف راستے ہی راستے ہیں، لیکن معلوم نہیں ہے کہ ان میں سے کون سا راستہ منزل تک پہنچائے گا اور کون سا مزید گہری الجھن میں پھنسا دے گا۔ معیشت میں ترقی کی بات کرنی ہو یا مصیبت کی، بات تو چین سے ہی ہوتی ہے۔ کورونا سے مقابلے میں چین کی سچی یا جھوٹی کامیابی کی کہانیوں کے درمیان اچانک اس کی سب سے بڑی رئیل اسٹیٹ کمپنی ایورگرانڈ کے قرض بحران کی خبر آگئی۔ تقریباً 3کھرب ڈالر کے قرض میں دبی اس کمپنی کے مارکیٹ پرائس چین کی جی ڈی پی کے 2فیصد کے برابر ہے، اور جتنا قرض اس نے لے رکھا ہے، وہ ملک کے بانڈ بازار میں 16فیصد کے برابر ہے۔ چین کے 280شہروں میں اس کے پروجیکٹس ہیں اور ملک کے باہر 200اور ملک کے اندر 2,000چھوٹی بڑی کمپنیاں اس کے گروپ کا حصہ ہیں۔ ان میں 2لاکھ سے زیادہ لوگ نوکری کرتے ہیں۔
اس سے سمجھئے کہ ایورگرانڈ کے ڈوبنے یا معاشی بحران میں پھنسنے کی خبر کتنے لوگوں کو مصیبت میں ڈال سکتی ہے۔ ایک دم یہی ہوا۔ نہ صرف چین کے، بلکہ پوری دنیا کے شیئر بازار میں جو تیز گراوٹ آئی، اس سے ایک ہی دن میں ایلن ماسک، جیف بیجوس، وارین بفے اور ایسے ہی دوسرے سرمایہ کاروں کو کل ملاکر 26ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ پوری دنیا کے شیئر بازاروں میں سرمایہ کاروں کو 2.2لاکھ کروڑ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
چین کی حکومت اس بحران سے نکلنے کی کوشش کرہی رہی تھی کہ دوسری مصیبت آئی۔ ملک کے تین صوبوں میں دسیوں لاکھ گھر اندھیرے میں ڈوب گئے، جس کی وجہ پیک ڈیمانڈ کے وقت پر بجلی کی راشننگ، یعنی کٹوتی بتایا گیا۔ اتنے پر بس نہیں ہے، چین کے مشرق و جنوب مشرق ساحلی علاقوں میں ہزاروں فیکٹریوں کی بجلی کاٹ دی گئی۔ کارخانوں کے لیے آلودگی کے نئے ضوابط نافذ کردیے گئے ہیں، جس کا نتیجہ ہے کہ ایپل اور ٹیسلا جیسی کمپنیوں کے بڑے سپلائرز کا کام بھی رک گیا ہے اور اس کی پروڈکشن ٹھپ ہوگئی۔گولڈمین سیکس نے حساب لگایا ہے کہ چین کی صنعتی پیداوار میں صرف اس وجہ سے 44فیصد کی کمی آسکتی ہے۔
چین میں اگر اس وقت پروڈکشن میں کمی آئے گی تو یوروپ اور امریکہ سمیت دنیا کے بہت بڑے حصہ میں الیکٹرانک گیزیٹس کی سپلائی کم ہوجائے گی۔ تہواروں کا موسم آرہا ہے۔ ایسے میں، اگر مال نہیں پہنچا تو سیل لگنے کے بجائے مال کی قلت اور منافع خوری کا خطرہ کھڑا ہوجائے گا۔ مہنگائی کا عالم پہلے ہی یہ ہے کہ جرمنی میں اس کے اعداد و شمار 29سال کی نئی اونچائی پر پہنچ گئے ہیں۔
بات چین کی ہی نہیں ہے، انگلینڈ میں بھی کئی جگہ پٹرول پمپوں پر بورڈ لگ گئے ہیں کہ ایندھن نہیں ہے۔ اور نیچرل گیس کی قیمتوں میں تیزی کی وجہ سے کئی کمپنیاں مصیبت کا شکار ہوتی نظر آرہی ہیں۔ پٹرول-ڈیژل کی قیمتیں 8سال کی نئی اونچائی پر ہیں اور قلت کا عالم یہ ہے کہ حکومت نے فوج کو تیل کی سپلائی کے لیے تیار رہنے کا آرڈر دیا ہے۔ قلت کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ کمی کے ڈر سے لوگوں نے گھبراکر زیادہ تیل خریدنا شروع کردیا ہے اور دوسری ٹینکروں کو چلانے کے لیے خاطرخواہ ٹرک ڈرائیور بھی نہیں ہیں۔

یوروپ، امریکہ اوربرطانیہ سبھی جگہ جو اندازے سامنے آرہے ہیں اور وہاں کی تجارتی تنظیمیں جو حال بتا رہی ہیں، ان میں نظر آتا ہے کہ بزنس کانفیڈنس، یعنی تاجروں کے حوصلے میں تیزی سے گراوٹ آرہی ہے۔ کل ملاکر دیکھیں تو دنیا کی معیشت اس وقت کسی دوراہے یا چوراہے پر نہیں کھڑی ہے، بلکہ ایک زبردست سائیکلون میں چکرگھنی کی طرح گھوم رہی ہے۔ یہ گھیرا توڑ کر کس طرف بھاگ نکلے گی، کہا نہیں جا سکتا۔

باقی یوروپ کا حال بھی برطانیہ سے الگ نہیں ہے۔ جاڑے کی شروعات ہوچکی ہے، یعنی گیس، بجلی اور تیل، تینوں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہونے والا ہے۔ یوروپ اور امریکہ میں جاڑوں میں گھروں اور عمارتوں کو گرم رکھنے کے لیے ہیٹنگ آئل کی ڈیمانڈ بھی بڑھتی ہے۔ اور یوروپ کے بڑے حصہ کو بجلی دینے والے ناروے کے ایک بڑے گرڈ آپریٹر نے انتباہ دیا ہے کہ اس مرتبہ سپلائی کا بہت دباؤ ہے۔ برطانیہ، جرمنی اور ڈنمارک، تینوں ممالک ناروے کی گرڈ سے وابستہ ہیں۔
امریکہ میں بھی تیل اور گیس کا الگ بحران کھڑا ہوتا نظر آرہا ہے۔ کورونا کے دور میں کمپنیوں نے ہاتھ کھینچ رکھے تھے اور اب انہیں کام کے لوگ نہیں مل رہے ہیں۔ ڈلاس فیڈرل بینک نے ایک سروے کیا ہے، جس میں تیل صنعت سے وابستہ 51فیصد افسران نے کہا کہ انہیں نئے لوگ ملنے میں مشکل ہورہی ہے۔ 70فیصد کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ مل رہے ہیں، انہیں پورا کام نہیں آتا، تو 29فیصد کا کہنا ہے کہ ورکر اب جتنے پیسوں کا مطالبہ کررہے ہیں، کمپنیاں اتنا دینے کی حالت میں نہیں ہیں۔
تو اب بحران یہ ہے کہ کورونا سے نجات مل گئی تو ایک نئی مصیبت سامنے کھڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں الگ الگ ایجنسیاں ترقی کا اندازہ کبھی بڑھاتی تو کبھی کم کرتی نظر آرہی ہیں۔ یوروپ، امریکہ اوربرطانیہ سبھی جگہ جو اندازے سامنے آرہے ہیں اور وہاں کی تجارتی تنظیمیں جو حال بتارہی ہیں، ان میں نظر آتا ہے کہ بزنس کانفیڈنس، یعنی تاجروں کے حوصلے میں تیزی سے گراوٹ آرہی ہے۔ کل ملاکر دیکھیں تو دنیا کی معیشت اس وقت کسی دوراہے یا چوراہے پر نہیں کھڑی ہے، بلکہ ایک زبردست سائیکلون میں چکرگھنی کی طرح گھوم رہی ہے۔ یہ گھیرا توڑ کر کس طرف بھاگ نکلے گی، کہا نہیں جاسکتا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS