مسلم طلبا کیلئے گیم چینجرثابت ہوسکتا ہے ’’مدنی-100‘‘

اندھیرے کا شکوہ کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے حصہ کی شمع جلادیں

0

قمر جاوید

ملک کا مسلمان سماجی،اقتصادی اور تعلیمی طورپر پسماندہ ہے، یہاں تک کہ تعلیم کے معاملہ میں وہ دلتوں سے بھی پیچھے جاچکاہے، برسوں پہلے سچرکمیٹی اپنی رپورٹ میں اعداد و شمار کی بنیادپر اس کی تصدیق کرچکی ہے، آزادی سے قبل ایسی صورت حال نہیں تھی، لیکن آزادی کے بعد غیر محسوس طریقہ سے مسلمانوں کے تعلق سے امتیازاورتعصب کی جو پالیسی سرکاری سطح پر اختیار کی گئی، رفتہ رفتہ اس نے اقتصادی اور تعلیمی طورپر مسلمانوں کو بہت پیچھے کردیا، اس میں بڑی حدتک دخل مسلمانوں کی اقتصادی پسماندگی کا بھی ہے جس کی وجہ سے بہت سے والدین اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات نہیں اٹھاپاتے چنانچہ ایسے بچے درمیان میں ہی تعلیم ترک کردیتے ہیں اور محنت مزدوری میں لگ جاتے ہیں، اس کے برعکس آزادی کے بعد ریزرویشن کی شکل میں دلتوں کو جو مراعات دی گئیں اس سے ایک طرف اگر ان کی تعلیمی صورتحال بہتر ہوئی تو دوسری طرف ان کی اقتصادی پسماندگی کا بھی خاتمہ ہو ا، ریزرویشن کی وجہ سے انہیں نوکریوں کے حصول میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی چنانچہ وہ مسلمانوں سے بہت آگے نکل گئے۔
حالت یہ ہے کہ تمام تربیداری اور کوششوں کے باوجود مسلمانوں میں خواندگی کی شرح دوسری قوموں کے مقابلہ کم ہے، ان میں یہ شرح 59.1فیصدہے جو قومی شرح سے کم ہے۔ انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والی ایک سروے رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں ناخواندگی کی شرح 42.7فیصدہے جو دوسری برادریوں اورطبقات کے مقابلہ سب سے زیادہ ہے۔ مذہبی گروپوں میں عیسائی فرقہ تعلیم کے میدان میں سب سے آگے ہے، عیسائی مردوں میں خواندگی کی شرح 88فیصدہے، جبکہ عیسائی خواتین میں یہ شرح 82فیصدکے آس پاس ہے، اسی طرح سکھوںمیں بھی خواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق مسلم خواتین میں دوسرے طبقات اور مذہبی گروپوں کے مقابلہ خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ مسلمانوں میں پرائمری سطح پر اسکولوں میں حاضری کی شرح درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل، اوبی سی، سکھ، عیسائی وغیرہ کے مقابلہ کم ہے۔ سب سے خطرناک بات تویہ سامنے آئی ہے کہ تین سے پینتیس سال کی عمرکے ایسے نوجوانوں کی تعدادمسلمانوں میں زیادہ ہے، جنہوں نے کسی روایتی تعلیمی پروگرام میں اپنا نام درج نہیں کرایا، دوسرے لفظوںمیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اسکول کا منھ ہی نہیں دیکھا، مسلمانوںمیں یہ تناسب 17فیصدہے، اعلیٰ تعلیم کے حصول میں بھی مسلمان دوسروں سے پیچھے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلمانوں میں اندراج کی شرح 13.8فیصد ہے جبکہ قومی شرح 23.6فیصدہے، اس معاملہ میں اوبی سی برادریوں کا تناسب سب سے بہتر ہے۔ پسماندہ برادریوں میں خواندگی کی شرح بھی مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن 2015-2014 کے مطابق 4.4فیصدمسلم بچے ہی اعلیٰ تعلیم کے لیے اندراج کراتے ہیں، جبکہ گزشتہ کچھ برس کے دوران درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اندراج کی شرح میں بڑااضافہ ہواہے، انہی حقائق کی بنیادپر سچرکمیٹی نے مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی وکالت کی تھی، جسے یہ کہہ کر مستردکردیا گیا کہ مذہب کی بنیادپر کسی طبقہ اور برادری کو ریزرویشن کی سہولت نہیں دی جاسکتی۔ ’انڈین مسلمس اینڈ ہائر ایجوکیشن-اے اسٹڈی آف سلیکٹ یونیورسٹیز اینڈ نارتھ اینڈ ساؤتھ‘ کے عنوان سے تیارکی گئی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ہندوستان میں غیر اقلیتی یونیورسٹیوں میں انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ میں مسلم بچوں کے داخلے کی شرح بالترتیب 9اور 11فیصدہے، اس کے برعکس شمالی ہندوستان کی غیراقلیتی یونیورسٹیوں میں انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ میں مسلم بچے کی داخلے کی شرح بالترتیب ایک اور 3فیصدہے۔ نیشنل سیمپل سروے آفس رپورٹ کے مطابق شہروںمیں مسلم مردوں کی خواندگی کی شرح 81فیصد سے زیادہ نہیں ہے جبکہ شہری علاقوںمیں ہندوؤں میں یہ شرح 91فیصد، عیسائیوں میں 94فیصداور سکھوںمیں 86فیصد ہے۔
یہ اعدادوشماراس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ایک دہائی قبل سچرکمیٹی کی جو چشم کشا رپورٹ آئی تھی، اس سے مسلمانوںمیں اپنی تعلیم کو لے کر کسی حدتک بیداری توآئی لیکن ان کی اقتصادی اور تعلیمی صورتحال میں کوئی اطمینان بخش بہتری نہیں آئی۔ درحقیقت تعلیمی پسماندگی کے پیچھے معاشی پہلوکا بھی بڑارول ہے، گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران تعلیم مہنگی ہوئی ہے، اور ایک اوسط مسلم خاندان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اپنے بچے کے تعلیمی اخراجات برداشت کرسکے، یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے اندراج میں مسلم بچوںکی تعداداب بھی بہت کم ہے۔ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوئی ہے، روایتی تعلیم یا یوں کہیں ایم اے، ایم ایس سی، بی ایڈ، ایم ایڈوغیرہ کا اب کوئی مستقبل نہیں رہ گیا ہے، نوکریوںکے مواقع بہت کم ہوگئے ہیں، ایسے میں پیشہ ورانہ تعلیم کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ پیشہ ورانہ تعلیم کافی مہنگی ہے، ایسا نہیں ہے کہ مسلم بچوںمیں ذہانت نہیں ہے، ان میں ذہانت بھی ہے اور محنت کرنے کا جذبہ بھی لیکن چونکہ ان کے گھر کی مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ ان کے والدین تعلیم کے اخراجات اٹھاسکیں، اس لیے ایسے بچے چاہتے ہوئے بھی اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ پاتے، یہی وجہ ہے کہ دوسری برادریوں اورمذہبی گروپوں کے مقابلہ مسلمانوںمیں درمیان میں ہی تعلیم ترک کردینے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ایک مثبت تبدیلی آئی ہے، کچھ اداروں نے مسلم بچوںکو پیشہ ورانہ تعلیم اور مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے لیے کوچنگ فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، ہمدرداسٹڈی سرکل اور زکوٰۃ فاؤنڈیشن توبہارمیں رحمانی۔ 30ایسے کچھ ادارے ہیں جو بچوںکو اس طرح کے کورسیز کے لیے کوچنگ فراہم کررہے ہیں، اس کے بہتر نتائج بھی سامنے آئے ہیں، اب جمعیۃعلماء ہند بھی آگے آچکی ہے، حال ہی میں نئی دہلی میں جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے ’’مدنی-100‘‘کے نام سے ایک مفت کوچنگ سینٹرکا افتتاح کیا ہے۔ مولانا مدنی کے بقول اس سینٹرکے قیام کا مقصدذہین اورباصلاحیت مگر مالی اعتبار سے کمزور طلبا کو مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے تیار کرنا ہے، اس کے لیے جن سوبچوںکا میرٹ کی بنیادپر انتخاب ہوگا، انہیں صدفیصداسکالرشپ مہیاکرائی جائے گی یعنی ان کے تمام تراخراجات مولانا حسین احمدمدنی چیری ٹیبل ٹرسٹ اٹھائے گا، جہاں تک جمعیۃعلماء ہند کا تعلق ہے وہ تعلیم کے شعبہ میں بھی طویل عرصہ سے کام کررہی ہے، اس کی طرف سے 2012سے میرٹ کی بنیادپر مالی طورپر کمزورطلباکو پیشہ وارانہ تعلیم کے لیے اسکالرشپ فراہم کی جارہی ہے۔ جمعیۃعلماء ہند کے ذرائع نے بتایا کہ اس سال سے اسکالرشپ کی رقم بھی پچاس لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کردی گئی ہے، اس اسکیم کے تحت 2020- 2021

بلاشبہ تعصب و امتیاز اور اقتصادی بدحالی کا شکار قوم کیلئے مولانا مدنی کا تازہ اعلان ایک مژدۂ جانفزا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان نہیں ہے، بلکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ اعلیٰ اور خاص طور سے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کا حوصلہ نہیں کرپاتے اور جن طلبا کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے انہیں صحیح رہنمائی نہیں مل پاتی، اس لیے وہ آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ایسے میں مسلم طلبا کیلئے’’مدنی-100‘‘ گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔

کے لیے 656طلبا کا انتخاب ہوا جن میں ہندو طلبا بھی شامل ہیں۔
مولانا سید ارشد مدنی نے کوچنگ سینٹرکا افتتاح کرتے ہوئے اپنے مختصرخطاب میںجو کچھ کہا وہ بہت اہم ہے، انہوں نے کہاکہ چونکہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ہے، اس لیے ہماری قوم کے بہت سے باصلاحیت اورذہین بچے درمیان میں ہی تعلیم ترک کرکے گھر بیٹھنے پر مجبورہوجاتے ہیں، اس کوچنگ سینٹرکے ذریعہ ایسے ہی بچوں کو مفت کوچنگ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے تمام تراخراجات پورے کیے جائیںگے۔ دوسری اہم بات انہوں نے یہ کہی کہ ہمیں ایسے اسکول اور کالجوںکی اشد ضرورت ہے جہاں ہمارے بچے بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ اعلیٰ سے اعلیٰ دنیاوی تعلیم حاصل کرسکیں۔ انہوں نے قوم کے مخیر اورصاحب حیثیت افراد کے ضمیر کو یہ کہہ کر جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ اللہ پاک نے اگر مالی وسائل دے رکھے ہیں تو وہ اپنے اپنے علاقوںمیں ایسے اسکول اور کالج کی بنیاد ڈالیں جو ایک ماڈل ہوں او رجن میں ہمارے بچے کسی امیتازاورتفریق کے بغیر اپنی تعلیم حاصل کرسکیں۔ مولانا مدنی نے یہ اعلان بھی کیا کہ اسی طرزکا ایک دوسرا مفت کوچنگ سینٹردیوبند میں بھی قائم کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہاکہ فی الحال یہ 100بچے تووہ ہوںگے جن کو مفت رہائش اور کوچنگ فراہم کی جائے گی لیکن وہ بچے جن کے گھروں کی مالی حالت قدرے بہتر ہے، اگر میرٹ میں آتے ہیں تو دوسرے کوچنگ سینٹرکے مقابلہ بہت کم فیس پر انہیں بھی کوچنگ فراہم کی جائے گی۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ ان کی دیرینہ خواہش آئی ایس اور پی سی ایس کی تیاری کے لیے ایک مفت کوچنگ سینٹرقائم کرنے کی ہے اور اگر ان کی مدنی-100مہم کامیاب رہتی ہے تو وہ بہت جلد اس کے لیے بھی ایک مفت کوچنگ سینٹر قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی پسماندگی سے باہر نکلنے اور امتیاز وتعصب کی زنجیروںکو کاٹ کر آگے بڑھنے کے لیے تعلیم راہ کا بنیادی پتھر ہے، بلاشبہ تعصب و امتیاز اور اقتصادی بدحالی کا شکار قوم کے لیے مولانا مدنی کا تازہ اعلان ایک مژدئہ جانفزا ہے،ایسا ہر گز نہیں ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان نہیں ہے، بلکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ اعلیٰ اور خاص طور سے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کا حوصلہ نہیں کرپاتے اور جن طلبا کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے انہیں صحیح رہنمائی نہیں مل پاتی، اس لیے وہ آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ایسے میں مسلم طلبا کے لیے ’’مدنی-100‘‘گیم چینجر ثابت ہوسکتاہے۔ مسلمانوں کی آبادی اور ان کی اقتصادی بدحالی کو دیکھتے ہوئے اس طرح کے اقدامات کو کافی نہیں کہا جاسکتا،اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کے دوسرے لوگ مولانا مدنی کی طرح سامنے آئیں اور اس عظیم کام کو سرانجام دینے کا فریضہ اداکریں۔احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے :
شکوئہ تیرہ شبی سے تو یہ بہتر ہے فراز
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جائیں
اندھیروں کا شکوہ بہت ہوچکا، اب انہیں دورکرنے کے لیے ہمیں میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔ ہم جب تک اپنے حصہ کی شمع نہیں جلادیتے، ان اندھیروںکو روشنی میں تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔
(مضمون نگار اردوکے سینئر صحافی
اور تجزیہ کار ہیں )

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS