ذو الحجہ اسلامی مہینے کا آخری مہینہ ہے،اسے حج والا مہینہ بھی کہتے ہیں۔
اللہ رب العزت نے اس ماہ کو ابتدائے آفرینش ہی سے قابل احترام قراردیاہے، کیونکہ وہ قرآن جو ازلی ہے، جو ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا، اسی قرآن مقدس میں جن چار حرمت والے مہینوں کا اللہ ربّ العزت نے ذکر کیا ہے، اسی میں سے ایک محترم مہینہ ”ذوالحجہ“کا بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس ماہ محترم میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر متعدد مخصوص اور اہم عبادتیں عائد کی ہیں۔
جیسے نماز، روزہ، قربانی، ححج کا رکن اعظم، وقوف عرفہ، قیام منی و مزدلفہ، سعی صفاء و مروہ وغیرہ۔
قارئین ! اسلام کے بنیادی پانچ ارکان ہیں جن میں سے ایک اہم رکن ”حج“ کا فریضہ بھی اسی ماہ میں اداکیا جاتا ہے، اور پوری دنیا کے مسلمان اس عظیم قربانی کی یاد میں اللہ کے حضوراپنی قربانی پیش کرتے ہیں جس کو اللہ عزوجل کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیھماالسلام نے اللہ کے حضورپیش کی تھی، ان برگزیدہ شخصیات کا عمل اللہ رب العزت کو اس قدرپسند آیا کہ رہتی دنیا تک کے لئے ان کے اس عمل میں سے بعض کو امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض، واجب اور سنت مؤکدہ قراردیکر زندہ وجادیدبنادیا، پوری دنیاسے امت مسلمہ ایام حج میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی بے مثال جذبہ فدائیت اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کے جذبہ جانثاری کی پیروی میں حکم الہی کو بجالانے کے لئے دیوانہ وار شہر امن ”مکۃ المکرمۃ“کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں، جہاں نہ کوئی رنگ ونسل کی تمیز ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی لسانی تفریق، ہر ایک کی زبان پر اپنے رب کے شوق دید میں بس ایک ہی کلمہ ہوتاہے:
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ۔
( حاضر ہوں یا اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تعریف اور نعمتیں تیرے لیے ہی ہیں، اور تیری ہی بادشاہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے)
معزز قارئین ! یہی وہ عشرہ ہے جس میں حجامت وغیرہ سے بچنامستحب ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لواور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہوتو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
اس حدیث سے اس بات کی تاکید معلوم ہوتی ہے کہ قربانی کا ارادہ رکھنے والے شخص کو ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعداپنے بالوں کی حجامت اور ناخن تراشنے سے بچنا چاہئے، ایک دوسری روایت میں ان الفاظ کی زیادتی ہے ”حتی یضحی“یہاں تک کہ وہ قربانی کرلے یعنی قربانی کرنے کے بعد حجامت وغیرہ کروائے اس سے پہلے نہیں، یہ حکم مستحب ہے، سنن ابی داود کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص نے قربانی کے عدم استطاعت کا اظہار کیا تو آپﷺ نے اس سے فرمایا ”تم 10 ذوالحجہ کو اپنے بال بنوالینا، ناخن تراش لینا،مونچھیں کتروالینا اور زیر ناف کے بال صاف کرلینا یہی عنداللہ تمہاری قربانی ہے“اس حدیث کی بنیادپر بہت سے اہل علم کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص جس پر قربانی واجب نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ ان ایام میں اپنے بالوں کی حجامت اور ناخن وغیرہ تراشنے سے بچے اور عیدالاضحی کی نماز کے بعد اپنی حجامت اور ناخن وغیرہ تراشے تاکہ ان ایام کی فضیلت اور قربانی کے ثواب کو پاسکے، ہمیں اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ نیز اس میں یہ ملحوظ رہے کہ اگر زیر ناف بال اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو ایسی صورت میں ان کی صفائی کرنا ضروری ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر حجامت اور ناخن نہ کاٹنے کا اس عشرے سے کیا تعلق ہے؟ اسکی کیا حکمت ہے؟
بتاتا چلوں کہ اس حکم کی دو حکمتیں علماء و محققین سے منقول ہیں۔
1۔ پہلی حکمت:
بعض علماء نے اس کی حکمت یہ ذکر کی ہے کہ اس کی ممانعت حجاجِ بیت اللہ سے مشابہت کے لیے ہے، کیونکہ ان کے لیے حج کے ایام میں بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا منع ہوتا ہے، لہٰذا جو لوگ حج پر نہ جاسکے اور قربانی کررہے ہوں تو وہ بھی حجاج کرام کی کچھ مشابہت اختیار کرلیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس رحمت کا کچھ حصہ انہیں بھی عطا فرمادیں گے جو حجاج بیت اللہ پر نازل ہوتی ہیں۔ اور انہیں کے ضمن میں قربانی نہ کرنے والے بھی مشابہت اختیار کرلیں یعنی وہ بھی حجامت اور ناخن کاٹنے سے رک جائیں تو وہ بھی رحمت کے حق دار بن جائیں۔
یہ توجیہ ہمارے بعض اکابر علماء سے منقول ہے، خصوصاً جو بیت اللہ اور شعائرِ حج کا عاشقانہ ذوق رکھتے ہیں، اور یہ توجیہ اپنی جگہ درست بھی ہے۔
لیکن محققین علماء کرام اور شراح حدیث نے اس توجیہ پر کلام کیاہے، اس لیے کہ اگر مقصود حجاج کی مشابہت ہو تو حجاج کرام کے لیے تو سلا ہوا لباس اور خوشبو کا استعمال وغیرہ بھی ممنوع ہے، اگر مشابہت مقصود ہوتی تو تمام احکام میں ہوتی۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ مشابہت کے لیے تمام امور میں مشابہت ضروری نہیں ہوتی، رحمتِ خداوندی متوجہ کرنے کے لیے ادنیٰ مناسبت بھی کافی ہے۔
لیکن اس پر پھر سوال ہوتا ہے کہ اگر بعض امور میں ہی مشابہت کافی تھی تو بھی بال، ناخن اور جسم کی کھال وغیرہ کاٹنے کی ممانعت میں ہی کیوں مشابہت اختیار کی گئی؟ احرام کی چادروں اور خوشبو کی پابندی میں بھی مشابہت ہوسکتی تھی!
اس لیے مذکورہ حکم کی ایک اور حکمت بیان کی گئی ہے، جو تحقیق کے زیادہ قریب اور راجح ہے، وہ درج ذیل ہے:
2۔ دوسری حکمت:
اس حکمت کو سمجھنے سے پہلے قربانی کی حقیقت اور فلسفہ سمجھنا ضروری ہے۔
قربانی کا فلسفہ:
درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جانثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کر دی ۔
پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جاندار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔
ایک راجح حکمت:
اب جب کہ قربانی کا مقصد معلوم اور مستحضر ہوگا تو گویا قربانی کرنے والے نے اپنے آپ کو گناہوں کی وجہ سے عذاب کا مستحق سمجھا کہ میں اس قابل ہوں کہ ہلاک ہوجاؤں اور میری جان خدا کے لیے قربان ہوجائے، لیکن شریعت نے جان کے فدیہ میں جانور کی قربانی مقرر کردی، سو یہ جانور انسان کی نیابت میں قربان ہورہاہے، تو قربانی کے جانور کا ہر جزو قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جز کا بدلہ ہے ۔
لہٰذا جس وقت جانور قربانی کے لیے خریدا جائے یا قربانی کے لیے خاص کیا جائے اس وقت انسانی جسم جس حالت میں ہو، مختص کردہ جانور اس انسانی جسم کے قائم مقام ہوجائے گا، اور جانور قربانی کے لیے خاص کرنے کے بعد جسم کا کوئی جز (بال، ناخن، کھال وغیرہ) کاٹ کر کم کردیا گیا تو گویا مکمل انسانی جسم کے مقابلے میں جانور کی قربانی نہیں ہوگی، جب کہ جانور انسانی جان کا فدیہ قرار پاچکاتھا۔
لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ قربانی اور نزولِ رحمت کے وقت انسانی جسم کا کوئی عضو و جزو کم ہو کر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فیضان الٰہی کی برکات سے محروم نہ رہے،تاکہ اس کو مکمل فضیلت حاصل ہو اور وہ مکمل طور پر گناہوں سے پاک ہو ، اس لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکور حکم دیا ہے کہ جب ذو الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی شخص کا قربانی دینے کا ارادہ ہو تو وہ شخص بال، ناخ، یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے جب تک کہ قربانی نہ دے دے۔
از قلم: امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click: https://bit.ly/37tSUNC