کورونا بحران اور آدھی آبادی

0

راجو پانڈے

دنیا کی آدھی آبادی کے تعلق سے محروم، استحصال کی شکار اور پسماندہ جیسی اصطلاحات کا استعمال ہمیں اب بھی کرنا پڑرہا ہے، یہ تشویشناک اور افسوس کی بات ہے۔ کووڈ-19کے سب سے زیادہ مضراثرات، بالخصوص باربار ہونے والے لاک ڈاؤن کا، خواتین پر تباہ کن اثر پڑا ہے۔ دی یونیورسٹی آف مین چیسٹرس گلوبل ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک ریسرچ کے مطابق لاک ڈاؤن کے سبب ملازمتوں سے محروم ہونے والوں میں خواتین کا تناسب مردوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے۔ لاک ڈاؤن ہٹنے کے بعد کام پر واپسی کی شرح کے معاملہ میں بھی خواتین مردوں سے بہت پیچھے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران متعدد شہری خواتین کی آمدنی یا تو صفر ہوگئی یا اس میں زبردست کمی آئی۔ گھروں میں کام کرکے اپنی روزی روٹی کمانے والی خواتین کا معاش اس دور میں چھن گیا۔ ان میں سے متعدد خواتین پھل اور سبزیاں فروخت کرنے جیسے چھوٹے موٹے روزگار کررہی ہیں، لیکن ان کی آمدنی پہلے سے بہت کم ہوگئی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2019کے ایک ورکنگ پیپر ’جینڈر اکوٹی ان دی ہیلتھ ورک فورس‘ کے مطابق صحت اور سماجی شعبہ میں 70فیصد افرادی قوت خواتین کی ہے۔ اگر اوسطاً صنفی تنخواہوں میں فرق(gender pay gap) نکالا جائے تو یہ ہیلتھ ورکرس کے لیے 28فیصد ہے۔ اس کے بعد بھی کورونا کے دوران نرسوں اور بچے کی دیکھ بھال کرنے والے کارکن(baby care worker) اور صفائی اہلکار چیلنج سے پر اور کئی مرتبہ غیرمحفوظ خوفناک حالات میں اپنے فرائض کی ادائیگی کرتے رہے ہیں۔ ستمبر، 2020کی یو این ویمنس رپورٹ کے مطابق خواتین کووڈ-19کے سبب سب سے زیادہ متاثر معاشی شعبوں سے وابستہ ہونے کے سبب بہت تیزی سے نوکریاں گنوا رہی ہیں اور ان کی آمدنی کے ذرائع چھن رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق کووڈ-19کے سبب 2021کے آخر تک 9کروڑ 60لاکھ لوگ انتہائی غربت کی حالت میں پہنچ جائیں گے۔ ان میں چار کروڑ 70لاکھ خواتین ہوں گی۔ میکنسے کی جولائی،2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق وبا کے سبب خواتین کی نوکریاں کھانے کی شرح مردوں کے مقابلہ میں 1.8گنا زیادہ ہے۔ غریب خواتین کی حالت مزید قابل رحم ہے۔ ان کے ذریعہ برے وقت کے لیے جمع کی گئی چھوٹی چھوٹی سیونگز(بچت) ختم ہوگئی ہیں۔ محفوظ رکھے گئے تھوڑے بہت روایتی زیورات بھی فروخت ہوچکے ہیں۔ زیادہ تر غریب خواتین سودخوروں کے نہ ختم ہونے والے چکرویوو میں پھنس چکی ہیں۔

ماہرین کے مطابق ورکنگ خواتین کے لیے ویری ایبل اور فلیکسی بل ورکنگ آورس، چھٹیوں کے ہمدردانہ متبادل اور بچوں کی دیکھ بھال اور اسکولی تعلیم کے بہتر انتظامات ان کی پریشانیوں کو کم کرسکتے ہیں۔ گھریلو تشدد کے مدنظر فوری قانون، علاج اور نفسیاتی مدد دینے کے لیے نہ صرف ایمرجنسی خدمات کی شروعات کرنی ہوگی، بلکہ یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ آسانی سے چلیں۔ جب اسکول دوبارہ کھلیں گے تب لڑکیوں کو واپس ان تک لانے کے لیے حکومت اور سماجی تنظیموں کو مؤثر کوششیں کرنی ہوں گی۔

غریبی ہے تو کھانے کے مسئلہ نے بھی خوفناک شکل اختیار کی ہے۔ روایت کے مطابق سب سے آخر میں کھانے والی خواتین کی تھالی عام طور پر خالی رہنے لگی ہے۔ کنبہ میں ممبران کی بڑھتی تعداد اور کھانے، رہائش کے مسئلہ نے ذہنی کشیدگی کو جنم دیا ہے اور مرد اپنی مایوسی کا اظہار خواتین کے ساتھ مارپیٹ کرکے کررہے ہیں۔ قومی خواتین کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق مارچ2020 میں لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد کے اعدادوشمار میں دوگنا اضافہ ہوا۔ اس برس پوری دنیا میں 15سے 49برس کی عمر والے طبقہ کی تقریباً24کروڑ30لاکھ خواتین اپنے قریبی لوگوں کے جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔ مردوں نے بڑی تعداد میں روزگار گنوایا، روزی کے مسئلہ اور مستقبل کی غیریقینی کیفیت نے انہیں مشتعل اور متشدد بنایا۔ خواتین ہمیشہ کی طرح اس تشدد کا شکار بنیں اور مرد کے غلبہ والی سوچ سے چلنے والے کنبوں کی دیگر خواتین انہیں تشدد سے متاثر ہوتی دیکھتی رہیں۔
شہری خواتین کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ وویمن ان ٹیکنالوجی انڈیا کی ایک ریسرچ بتاتی ہے کہ آئی ٹی، ٹیکنالوجی، بینکنگ اور مالیاتی شعبہ میں کام کرنے والی 21 سے 55برس کی زیادہ تر خواتین گھر سے کام( ورک فرام ہوم) کررہی ہیں اور چوں کہ لاک ڈاؤن کے سبب سبھی ممبر گھر پر تھے اور باہر کوئی سہولت یا مددگار بھی دستیاب نہیں تھا، اس لیے گھریلو کام میں اضافہ ہوا۔ میکنسے کا اندازہ ہے کہ ہندوستانی خواتین پر گھریلو کام کے بوجھ میں کووڈ دور میں 30فیصد کا اضافہ ہوا۔ یہ اعدادوشمار اتنے نہیں ہوتے اگر ہم اس مرد کے غلبہ والی سوچ سے باہر نکل پاتے کہ خواتین کے لیے کنبہ اولین ترجیح ہے، نوکری نہیں اور کنبہ کے سربراہ مرد کا کام ارتھوپارجن ہے۔
یہی مردوں سے متعلق نقطہ نظر تعلیم کے شعبہ پر بھی حاوی ہے۔ یہاں بھی جب تعلیم مہیا کرانے یا مشکل حالات میں تعلیم جاری رکھنے کا سوال آتا ہے، تب لڑکے ہی مرد کے غلبہ والی سوچ والے فیملی سسٹم کی پہلی پسند ہوتے ہیں۔ یونیسکو کے اندازہ کے مطابق ایک کروڑ 10لاکھ لڑکیاں کووڈ-19کے سبب اب دوبارہ کبھی اسکول نہیں جاپائیں گی۔ جب لڑکیاں اسکول نہیں جاپاتی ہیں تو اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے-جلدی اور جبراً شادی، کمر عمری میں حاملہ ہونے کی مجبوری اور کبھی نہ ختم ہونے والے تشدد کا سامنا۔ کووڈ-19کے سبب اسکول بند ہیں۔ گھر پر ہی ڈیجیٹل ذرائع سے پڑھائی چل رہی ہے۔ مگر لڑکیاں تو ان گھروں میں بھی ڈیجیٹل وسائل سے محروم رکھی جاتی ہیں، جہاں ان کی دستیابی ہے۔ لڑکوں کا ان پر پہلا حق ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں ہم ان لڑکیوں کو کھیتوں میں والدین کی مدد کرتے دیکھتے ہیں اور شہروں میں اپنے کنبہ کے چھوٹے موٹے کام دھندے میں ہاتھ بٹاتے پاتے ہیں۔ کووڈ-19ان کی زندگی میں ناخواندگی کا نہ مٹنے والا اندھیرا لانے والا ہے۔
صحت کے شعبہ میں بھی خواتین کے لیے مایوس کن صورت حال ہے۔ کووڈ کے دورمیں زچگی سے قبل کی دیکھ بھال، زچگی اور زچگی کے بعد احتیاطی تدابیر میں ناقابل تصور مشکلیں آئی ہیں، کیوں کہ اسپتال کووڈ-19سے نمٹنے میں مصروف تھے اور ان کے دیگر محکمے یا تو بند تھے یا بہت محدود صلاحیت کے ساتھ کام کررہے تھے۔ یہی حالات بچوں کے علاج اور انہیں غذائیت سے بھرپور غذا اور ٹیکوں کی دستیابی کے تعلق سے ہے۔ ان شعبوں میں ہم ویسے ہی ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں اور کووڈ-19نے خواتین کی صحت کو مزید بحران میں ڈال دیا ہے۔
مارچ2021 میں ورلڈ اکنامک فارم کے ذریعہ جاری گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ کووڈ-19کے تباہ کن اثرات کا اندازہ کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ صنفی مساوات کے لیے خواتین کو اب ایک اور نسل تک انتظار کرنا ہوگا۔ کووڈ-19کے مضر اثرات کے سبب صنفی مساوات کا ہدف اب 99.5برسوں کے بجائے 135.6 برسوں میں حاصل کیا جاسکے گا۔
یہی حالت معاشی شعبہ کی ہے، لیکن صنف پر مبنی اعدادوشمار جمع کرنے کا نہ تو کوئی سسٹم پہلے تھا، نہ اب بنانے کی کوئی کوشش ہورہی ہے۔ جو بھی اعدادوشمار آرہے ہیں وہ آزاد اداروں کے ہیں۔ سینٹر فار مارنیٹرنگ انڈین اکنامی کے مطابق خواتین کی بے روزگاری کی شرح چھلانگ مار کر 17فیصد پر پہنچ گئی ہے جو مردوں سے دوگنے سے بھی زیادہ ہے۔ دی ناز فاؤنڈیشن کا ایک سروے بتاتا ہے کہ ہندوستان میں خواتین کی ہفتہ وار آمدنی میں لاک ڈاؤن کے سبب 76فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔ ڈے لائیٹ کا اندازہ ہے کہ کووڈ-19کے بعد ہندوستان میں صنفی عدم مساوات میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ صنفی تفریق کو پناہ دینے والے سسٹم کے ذریعہ روایتی طور پر خواتین اور مردوں کے لیے جن کرداروں کا تعین کیا گیا ہے، کورونا سے جدوجہد کی ہماری حکمت عملی میں انہیں جاری رکھ کر ایک طرح سے انہیں منظوری ہی دی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق ورکنگ خواتین کے لیے ویری ایبل اور فلیکسی بل ورکنگ آورس(Variable and flexible working hours)، چھٹیوں کے ہمدردانہ متبادل اور بچوں کی دیکھ بھال اور اسکولی تعلیم کے بہتر انتظامات ان کی پریشانیوں کو کم کرسکتے ہیں۔ گھریلو تشدد کے مدنظر فوری قانون، علاج اور نفسیاتی مدد(psychological support) دینے کے لیے نہ صرف ایمرجنسی خدمات کی شروعات کرنی ہوگی، بلکہ یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ آسانی سے چلیں۔ جب اسکول دوبارہ کھلیں گے تب لڑکیوں کو واپس ان تک لانے کے لیے حکومت اور سماجی تنظیموں کو مؤثر کوششیں کرنی ہوں گی۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS