یوکرین جنگ کے دوران عالمی سیاست کی ترجیحات بالکل بدل گئی ہیں۔ پوری دنیا کی توجہ یوکرین پر حملے کے بعد پیداہونے والے حالات پر مرکوز ہوگئی ہے۔ یوکرین کوامریکہ اور اس کے خلاف یوروپی ممالک فوجی اسلحہ، امداد اور سفارتی مددفراہم کرانے میں مصروف ہیں۔ اسرائیل اپنے مقاصد اور عزائم کو پورا کرنے اورعالمی سیاست کے دیگر پہلوؤں کو نظرانداز کررہاہے۔امریکہ کی مکمل توجہ یوکرین اوراس سے پیدا ہونے والی صورت حال پرہے لہٰذا اب وہ اپنے وسیع ترایجنڈے پرعمل کرتے ہوئے مغربی کنارے کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پریہودیوں کوبسانے اور فلسطینیوں کو بے گھر کرنے پرمرکوز کیے ہوئے ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیل کے ذریعے بستیوں کی غیرقانونی اور قیام امن میں بڑی رکاوٹ ہے۔
زمینی حقائق اس قدرتلخ ہیں کہ نام نہادعالمی برادری کی معتبریت اس قدر کمزورہوگئی ہے کہ بدترین حالات اور سنگین ترین امور میں یہ غیرجانبدارطاقتیں اسرائیل کادفاع کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ معزول صدر ڈونالڈٹرمپ نے تمام بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کو پامال کرتے ہوئے مشرقی یروشلم پراسرائیل کے موقف کوجو کہ صریحاً نانصافی پرمبنی ہے، نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اپناسفارتی عملہ بھی مشرقی یروشلم میں تعینات کرنے اوروہاں دفتر کھولنے کااعلان کردیا۔ آج عالمی برادری کی تمام ترکوششوں اور صلہ رحمی کے دعوؤں اور اسرائیل کے کئی ممالک کے ساتھ سمجھوتوں کے دفاعی معاہدوں کے باوجود اسرائیل کا فلسطینیوں کے تئیں ظالمانہ رویہ برقرار ہے۔ پچھلے دنوںمغربی کنارے میں ایک ساتھ 19افراد کی شہادت کے بعداسرائیل کے سماج میں سڑکوں پر خوں ریز تصادم کی صورت حال پیداہوگئی ہے۔
غزہ کی پٹی کوایک کھلی ہوئی جیل میں تبدیل کرنے اور عربوں، فلسطینیوں کو بدترین زندگی گزارنے پرمجبور کرنے کے بعد اب اسرائیل مغربی کنارے کے وسیع اور عریض علاقے پرغیرقانونی تعمیرات کرارہاہے اور نئے نئے علاقوںمیں فلسطینی گھروں میں انہدام کرکے وہاں دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر بسایاجارہاہے۔
اسرائیل کے حالیہ انتخابات میں جن کے نتائج یکم نومبر کو سامنے آئے تھے، سخت گیر نظریات کی حامل سیاسی پارٹیاں برسراقتدار آئی ہیں، ان میں وہ سیاسی پارٹیاں بھی ہیں جن کو نسل پرست اور قانون شکن بھی قرار دیاجاتا ہے۔ سخت گیر لیڈر بنجامن نتن یاہو کی قیادت میں برسراقتدار آنے والی حکومت نے اجتماعی طورپر سزادینے اورفلسطینیوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی پالیسی پرعمل کرناشروع کردیاہے، جس کے تحت فلسطینیوںاور اسرائیلیوں کے ساتھ تصادم میں فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کرنا شامل ہے۔ ظاہرہے کہ یہ حرکات اوراقدام بین الاقوامی قواعد اورقوانین کی کھلی ہوئی خلاف ورزی ہے۔
اس کے علاوہ اسرائیل کی موجودہ حکومت نظام پراپنی گرفت مضبوط کرنے کی خاطر اورعدلیہ کی مداخلت کو بے اثرکرنے کے لیے ایسی ترمیمات کرتی ہے، جن کے تحت سپریم کورٹ کے احکامات کو نظرانداز کرنا آسان ہوجائے گا۔ اسرائیل کے اندر موجودہ حکومت کے ان اقدام کے خلاف سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔ یروشلم اور تل ابیب میں کئی اعلیٰ پیمانے کے احتجاج ہوچکے ہیں۔ عام جمہوریت پسنداسرائیلیوں کا کہناہے کہ اس طرح کی ترمیمات سے اسرائیل کی جمہوری اقدار اور روایات کو نقصان پہنچے گا۔ اسرائیل کے سماج میں لگاتار جمہوری اقدار اور روایات کے زوال پربحث ہورہی ہے۔اسرائیل اور امریکہ کا ایک بڑاطبقہ دونوں ملکوں میں جمہوری اقدار کی دہائی دیتارہاہے مگر امریکہ میں ایک طبقہ اس بات کا بھی قائل ہوگیاہے کہ ان کے ٹیکس کی قیمت پراسرائیل کو اس انسانیت کشی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے لیے کب تک اورکس حد تک حمایت کی جائے گی۔دراصل مغربی ایشیا میں بین الاقوامی برادری خاص طورپر امریکہ کی علیحدہ ترجیحات ہیں۔ ان طاقتوں کے قول وعمل میں بلاکاتضاد نظرآتاہے۔ اسرائیل کی حکمت عملی فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرکے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کوقابومیں کرناہے۔پچھلے دنوں امریکہ فلسطینیوں کو مزید سفارتی مراعات دینے اور امداد فراہم کرانے کے امورپر اسرائیل پردباؤ ڈال رہاہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو واشنگٹن میں سفارت خانہ کھولنے، اس کو مالی امداد فراہم کرانے کے لیے وعدہ کیاگیاتھا مگر اسرائیل نے ان دونوں اقدام پرامریکہ کو عمل کرنے سے باز رکھاہے۔
مغربی ایشیا کی صورت حال انتہائی دھماکہ خیز ہے اگرچہ حالات کی سنگینی کومدنظر رکھتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے فلسطین اور اسرائیل کا دورہ کیا ہے مگر امریکی حکام کا رویہ کس قدر جانب دارانہ اور غیر منصفانہ ہے،اس کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتاہے کہ اسرائیلیوں کی بربریت دیکھتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کی غاصب فوج کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے اعلان پر محمودعباس کے ساتھ اظہارناراضگی کیا ہے۔n