دومسلم ملکوں کے اختلاف میں مغرب کا کھیل

0

افریقہ کے دواہم ممالک اور خطہ کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بنے مغربی صحارا تنازع میں ایک بار پھر چنگاری دہک رہی ہے۔ یوروپ کے کئی ممالک نے مغربی صحارا کے معاملہ پر مراقش کے موقف کی حمایت کی ہے۔ مغربی صحارا جنوبی مراقش کاحصہ ہے اور وہاں آزادی اور خودمختاری کے لیے پرتشدد تحریک چل رہی ہے، جس کی حمایت پڑوسی مسلم عرب ملک الجیریا کررہاہے۔ مغربی صحارا میں پولیساریوں فرنٹ،جلاوطن حکومت چلا رہا ہے اور اس فرنٹ کو الجیریا نے سیاسی، سفارتی، عسکری مدد دی ہے اورجلاوطن حکومت مراقش کے ساتھ برسرپیکار ہے اور الجیریا اس خطے میں ایک آزاد ملک بنانے کے لیے ایران اور دیگر ہم نواؤں کی مدد لے رہاہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ممالک مراقش کا کھل کر ساتھ دے رہے ہیں جبکہ الجیریا نے روس کے ساتھ تعاون کرنا شروع کردیا ہے اور یہ صورت حال اپنے علاقے میں روس اور امریکہ وناٹو ممالک کی کشمکش کا گڑھ بن گیا ہے۔ حال ہی میں مغربی ممالک نے مراقش کے موقف کی تائید زیادہ زور وشورسے کرنی شروع کردی ہے اور یوروپی یونین کے کئی ممالک یونین کا دباؤ استعمال کررہے ہیں۔ اس تنازع پر اقوام متحدہ نے ایک کمیٹی بنائی ہوئی ہے۔ یہ پورا خطہ اسپین سامراج کے کنٹرول میں تھا۔ 1975کی دہائی کے وسط میں آزادی ملنے کے بعد یہ خطہ (مغربی صحارا) مراقش کی حکومت کے تسلط میںآگیاتھا مگر یہاں پر ایک آزاد ملک بنانے کی تحریک چلتی رہی اور مسلح جدوجہد نے خطے کے امن وامان کو خطرے میں ڈالے رکھاہے۔
مراقش محدود خودمختاری کے لیے 2007سے ہی راضی ہے مگر پولی ساریوفرنٹ ایک مکمل طور پرآزاد ملک کاخواہش مند ہے۔ اقوام متحدہ نے 1991میں مداخلت کرکے جنگ بندی کرادی تھی۔ اقوام متحدہ نے فیصلہ دیاتھا کہ مغربی صحارا میں ریفرینڈم کے ذریعہ مقامی لوگوں کی رائے لی جائے گی۔ تب جاکر تنازع کو حل کیاجائے گا۔ مگر فریقین نے ریفرینڈم کے قواعد کو لے کر شدید اختلاف رائے ظاہر کیاتھا۔ اس کے بعد سے مسئلہ کے حل کے لیے اس طریقہ کار پرزیادہ زور نہیں دیا گیا۔ اقوام متحدہ اس مسئلہ پرفریقوں سے سمجھوتہ کرنے پر زور دیتی رہی ہے۔
تعطل کے حل میں تاخیر اور تامل کو دیکھتے ہوئے مغربی صحارا کی جلاوطن حکومت 2020سے مسلح جدوجہد شروع کرنے کا فرمان جاری کرچکی ہے۔ مگرزمینی سطح پر پرتشدد واقعات نہیں ہوئے ہیں اور مراقش بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعہ اپنے اقتدار اعلیٰ کے دعوی ٰ کو مضبوط کرتارہا ہے۔
مراقش پوری دنیا اور خصوصاً یوروپی اور ناٹوممالک کو اس بات پر متفق کرانے میں کامیاب رہاہے کہ اگر مراقش سے علیحدہ ہوکر کوئی نیاملک معرض وجود میں آتاہے تواس کااثر پورے خطے کے امن اور استحکام پر مرتب ہوگا ،کیونکہ یہ خطہ یوروپ کے جغرافیائی طور پرقریب ہے تو پورے علاقہ میں ناپسندیدہ اور شدت پسندعناصر یوروپ میں اپنا عمل دخل بڑھا لیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ تخریب کاری خطے میں تجارتی لین دین اور آپسی تعاون میں مانع ہوں گی۔
اس تنازع کی دلچسپ بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔کے دوام فریق ملک الجیریا اور مراقش میں زمین کو لے کر کوئی سرحدی تنازع نہیں چل رہا ہے۔ بلکہ الجیریا اس علاقے میں ایک آزاد وخودمختار ملک کے قیام کی حمایت کررہاہے جس پر مراقش کی دعویداری ہے اور وہ ابھی بھی مراقش کا اقتداراعلیٰ مغربی صحارا پر برقرار ہے۔ مراقش اس خطے کو آزاد کرنے کے لیے تیارنہیں مگر وہ اس کو ہر ممکن خودمختاری کا قائل ہے۔ وہ مراقش کے اقتدار میں خارجی عمل دخل کو پسند نہیں کرتا ہے اور اپنے ملک کی علاقائی خودمختاری کے لیے ہرممکن کوشش کررہاہے۔ مراقش، امریکہ، یوروپ اور ناٹو وغیرہ سے گہرے روابط کا قائل رہاہے۔ عرب دنیا میں ابھی اس کے اچھے رابط ہیں۔ایک زمانے میں میں اسپین کی سامراج رہنے والا مراقش، افریقہ اور خطے کی بڑی اقتصادی اور سیاسی طاقت بن گیا ہے۔ اسپین جب اقتصادی بحران سے گزررہاتھا تواس نے ترقی یافتہ ملک اسپین کو بحران سے نکلنے کیلیے مدد کی تھی۔ اس طرح اسپین مراقش کواحسان مند ہے اور اس کے بدلے میں اپنی حمایت الجیریا کو دے رہاہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS