جدّہ عرب اجلاس: ریگ زاروں میں خوشگوارہواکاجھونکا

0

شاہنواز احمد صدیقی

ایک طرف جدہ میں عرب ممالک کے نمائندہ تنظیم ’عرب لیگ‘ کا اہم اجلاس ہورہاہے تو دوسری طرف دو عرب ملکوں سوڈان اور لیبیا میں زبردست خانہ جنگی اور بے چینی ہے۔ 15اپریل سے سوڈان کے دواہم عسکری گروپوںسوڈوانی فوج اور رپیڈسپورٹ فورس (آرایس ایف)کے درمیان جنگ چھڑ چکی ہے، جس کا اثر ’قرن افریقہ‘ (Horn of African) کے ملکوںمیں صاف دکھائی دے رہاہے۔ دوسری طرف جبکہ سوڈان کے پڑوسی ملک لیبیا میں انتہائی دھماکہ خیز صورت حال ہے اور وہاں پر خانہ جنگی میں بڑے پیمانے شدت کا اندیشہ ظاہر کیاجارہاہے۔یہ اجلاس مغربی ایشیا کے مسلم اور عرب ملکوں میں آپسی افہام وتفہیم کے دور کی شروعات کے بعد اس سطح کی پہلی اجتماعی سفارتی کوشش ہے، جس میں خطے کے ممالک کی طاقت اور اہمیت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ مگر دوسری طرف جنگ کے کئی محاذ بھی کھلے ہیں۔ اس میں سوڈان ، لیبیا کی خانہ جنگی کے علاوہ مراقش اور الجیریا کے درمیان اختلافات کی گہری ہوتی خلیج بھی ہے۔
سوڈان میں حالیہ جنگ نے راجدھانی خرطوم کو بری طرح متاثرکیاہے اور دونوں گروپوں کا فی الحال فوکس صرف خرطوم پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ سوڈانی فوج اپنے دشمن آر ایس ایف کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہی ہے اور ہوائی طاقت کا استعمال کرکے آر ایس ایف کے اڈوں پر جہازوں سے بم گرارہی ہے۔ آر ایف ایس کے پاس اگرچہ فضائی طاقت نہیں ہے مگر وہ گوریلا طریقہ جنگ کو اختیار کرکے اپنے دشمنوں کو نیست ونابود کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ جدہ میں عرب لیگ کانفرنس کے دوران جنگ میں شدت آنا محمدبن سلمان کی کوششوں کی نفی کرنے والا ہے۔ دونوں فریقوں کے نمائندے جدہ میں سعودی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو کررہے ہیں مگر ان کی جنگی جنون میں کمی نہیں آئی ہے۔ سعودی عرب دنیا میں امن وامان قائم کرنے کی کوشش کررہاہے اور اس کا مقصد مغربی ایشیا اور عرب دنیا کو یوروپی یونین کی طرز پر اقتصادی اور صنعتی سرگرمیوں کا مرکز بنا کر دنیا کے نقشے پر اس کی شناخت کو تبدیل کردینے کا ہے۔ شام کے ساتھ مذاکرات کرنا اور اس کو دوبارہ عرب لیگ میں شامل کرنا جرأت مندی کا مظاہر ہے مگر سعودی عرب پڑوسی ملک سوڈان میں اچانک اس دھماکہ خیز صورت حال کا پیدا ہونا عرب دنیا کے لیے باعث تشویش ہے کہ سوڈان سعودی عرب کا قریبی حلیف ہے اور بحراحمر کے اس پار آباد سوڈان محمدبن سلمان کے 2030کے وژن میں اہم مقام رکھتا ہے۔ اس صورت حال میں سعودی عرب کی فکرمندی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جنگ چھڑنے کے فوراً بعد بہت تیزی اور بڑے پیمانے پرپوری دنیا کے شہریوں کو سوڈان سے نکال کر پہلے اپنی سرزمین پر پہنچانے کی کوشش کی اور پھر وہاں سے ان کے ممالک میں پہنچانے کے لیے انتظامات کیے۔ 35دن کی جنگ میں سوڈان میں زبردست جانی ومالی نقصان ہوا ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے کو ختم کرنے پر آمادہ ہیں کیونکہ حالات کے اس مقام پر پہنچنے کے بعد کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مقام پر پہنچنے کے بعد عرب لیگ اوراس کے اہم ترین ممالک بطور خاص سعودی عرب اور یواے ای کس طرح اس نئے میدان جنگ کی آگ کو بجھاپاتے ہیںیا یہ ملک بھی لیبیا، عراق، شام اور یمن کی طرح نفرت کی آگ میں جھلس کر برباد ہوجائے گا؟
سعودی عرب کے ساتھ ساتھ عرب دنیا کودرپیش اہم مسائل اور تنازعات میں مصر نے اہم رول ادا کیا ہے اور سب سے پیچیدہ مسئلہ فلسطین کے علاوہ لیبیا، سوڈان، ایتھوپیا وغیرہ میں مصرخاص طور پر سرگرم رہاہے۔ سوڈان کی خانہ جنگی میں آخری وقت میں مصر کو اپنی فوج کو باہر نکلنا پڑا اور تقریباً یہی صورت حال لیبیا میں بھی ہے۔ لیبیا کی مصر سے ملی ہوئی سرحد پرروس کی فوج اور پتن کی حمایت کرنے والی پرائیویٹ دفاعی کمپنی ’ویگنر‘ کی افواج اور عملہ کی تعیناتی پرمصرناراضگی ظاہر کرچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ مصر کو لگتا ہے کہ خطہ میں سرگرم خارجی طاقتیں اس کی داخلی اور سرحدی سلامتی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اس وقت لیبیا میں جو خانہ جنگی، غیرملکی فوجی مداخلت اور عدم استحکام ہے، وہ امریکہ اور ناٹو فوج کی لیبیا اور کرنل قذافی کی اندھی دشمنی کا نتیجہ ہے۔ مغربی ممالک نے کبھی نہیں چاہاہے کہ پیٹرولیم اور دیگر معدنیات سے مالا مال اس ملک میں ایک خوددار، اپنے فیصلے آپ اور اپنے عوام کے مفادات کے مطابق لینے والی قیادت برسراقتدار رہے۔ 2011میں نام نہاد جمہوریت کے قیام کی تحریکوں کے بہانے مغربی افریقہ کے مسلم اور عرب ملکوں میں جو عدم استحکام پیداکیاگیا تھا اس دوران موقع غنیمت جان کر اوربطورخاص امریکہ نے حملہ کرکے کرنل قذافی کو اقتدار سے بے دخل کردیاتھا۔اس کے بعد سے آج تک افریقہ کے سب سے خوش حال ملک میں ابھی تک امن قائم نہیں ہوسکا ہے اور اب تو حالات اور خراب ہوتے جارہے ہیں۔ سیاسی استحکام اور اقتصادی خوش حالی مفقود ہے ۔ سیاسی قیادت اور متحارب فوجی گروہ، بری طاقتوں کی شہ اور سرپرستی میں لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجاچکے ہیں۔ ایسے حالات میں عرب لیگ کا یہ اجلاس کس حد تک جنگ بندی قائم کرنے اور جمہوری نظام کو رائج کرنے میں کامیاب ہوگا یہ تووقت ہی بتائے گا مگر اس خطہ کے مختلف ممالک کے موجودہ حالات، ماضی اورتاریخ کے تجربات سے نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہاں جمہوریت استحکام قائم نہیں کرسکتی ہے۔ مصر، لیبیا، تیونس، الجیریا، شام، عراق کے حالات توکم ازکم یہی تلخ حقیقت باور کراتے ہیں۔
بہرکیف عرب ممالک کے سربراہ اجلاس کی تیاریوں کے دوران سعودی عرب لیبیا میں کشت وخون کا سلسلہ ختم کرانے کی کوشش کرتارہاہے۔ سعودی عرب لیبیا کے تمام خطوں کے لیڈر، قبائلی سرداروں اور فوجی گروہوں سے بات چیت کرکے صورت حال کو قابو کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ اقدام ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل کو ختم کرنے میں اہم ثابت ہوگا،اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔
فلسطین پر اسرائیل کے قبضہ سے پیدا ہونے والی صورت حال پر پوری دنیا کی نظر ہے۔ یہ عرب چوٹی کانفرنس بھی ایسے وقت میں ہورہی ہے جب مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بربریت بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ یوم یروشلم منا کر غاصب حکومت تمام ابراہیمی مذاہب کے لیے اہمیت کے حامل یروشلم پر اپنی دعویداری کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل بیت المقدس کی مسلسل بے حرمتی پر پوری دنیا کی جمہوریت پرست حکومتیں خاموش ہیں، اہم سوال یہ ہے کہ ایسے ماحول میں عرب سربراہ اجلاس کا نشستن گفتن برخاستن بن کر تاریخ کا حصہ بن جائے گا یا اس سے مستقبل قریب میں کوئی بڑا فائدہ ہوگا!۔n
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS