جنگ بہت پہلے شروع ہوگئی تھی!

0

دنیا کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے حالات کا اثر ایک ملک کے دیگر ملکوں سے تعلقات پر پڑتا ہے، اس لیے روس کا یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ 24اگست، 2022 کو یوکرین جنگ کے 6ماہ پورے ہوگئے، کیونکہ جنگ اسی سال 24 فروری کو شروع ہوئی تھی مگر کیا یہ سچ ہے کہ جنگ 24 فروری سے ہی ہو رہی ہے۔ بظاہر تو باضابطہ جنگ 24 فروری، 2022سے ہی ہو رہی ہے مگر سچ یہ بھی ہے کہ جنگ 20 فروری، 2014کو ہی شروع ہو گئی تھی جب روس نے کھل کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا اور کریمیا کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ رو س اتنے پر اکتفا نہیں کرے گا، وہ پورے یوکرین کو ہی اپنے دائرۂ اثر میں لینا چاہے گا، کیونکہ اسے یہ منظور نہیں ہے کہ اس کی سرحد سے متصل کوئی ملک ناٹو کا ممبر بن جائے اور اس کی سیکورٹی کے لیے مسلسل ایک چنوتی بنا رہے۔ اس کے باوجود یوکرین کے صدر زیلنسکی نے روس کی طاقت کی نظرانداز کرکے ناٹو سے تعلقات مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ غالباً اس وقت وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ امریکہ اور اس کے یوروپی اتحادی ملکوں کے لیڈران روس کے خلاف چاہے جتنے بیانات دے دیں مگر وہ اس کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی حماقت نہیں کریں گے، کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں روس اپنی پوری طاقت جنگ میں جھونک دے گا، اندیشہ اس بات کا بھی رہے گا کہ اس کے چین جیسے اتحادی اس کے ساتھ آجائیں اور جنگ یوروپ کے ایک بڑے علاقے تک پھیل جائے یعنی تیسری عالمی جنگ شروع ہو جائے۔ ویسے روس نے 2014 میں کریمیا کو ملاکر یہ دکھا دیا تھا کہ اس کی طاقت کیا ہے۔ اس وقت بھی امریکہ یا کسی اور ملک نے اس کے خلاف جانے کی حماقت نہیں کی تھی، اس لیے یہ بات طے سی تھی کہ یوکرین کے خلاف اس کے باضابطہ جنگ چھیڑنے پر بھی امریکہ یا کوئی ملک روس کے مدمقابل لڑنے کے لیے نہیں آئے گا، البتہ یہ خوش فہمی ضرور تھی کہ روس کے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑنے پر اگر امریکہ نے کچھ نہیں کیا تو اس کے خلاف پابندیاں عائد کرے گا، اس سے اقتصادی طور پر وہ ٹوٹ جائے گا، اس کے گھریلو حالات خراب ہو جائیں گے، اس سے اس کے لیے جنگ کو جاری رکھنا آسان نہیں ہوگا مگر یہ بات سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی کہ روس، عراق نہیں کہ وہ پابندیوں کو برداشت نہیں کر پائے گا۔ جنگ کے بعد کے 6 مہینوں میں روسی صدر ولادیمیر پوتن جیسے حالات سے نمٹنے میں کامیاب رہے ہیں، اس سے یہی لگتا ہے کہ وہ ساری چنوتیوں کے لیے پہلے سے تیار تھے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کیا پابندیاں عائد کریں گے اور ان سے روس کو کس طرح نمٹنا ہوگا۔
ولادیمیر پوتن کی تیاروں کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہو سکا کہ جنگ کا اثر روس کی اقتصادیات پر اس طرح نہیں پڑا جیسا پڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا بلکہ تیل کی اس کی کمائی میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی۔ روس کے خلاف یوروپی ممالک کا ساتھ بھی امریکہ کو اس طرح نہیں ملا جس کی توقع کی تھی۔ یوکرین جنگ پر یوروپ بٹا ہوا نظر آیا۔ اسی لیے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ یوکرین پر قابض ہونے میں اگر روس کامیاب ہو گیا تو پھر وارسا پیکٹ کے دن واپس آسکتے ہیں۔ ویسے ولادیمیر پوتن کے قول و عمل سے یہی لگتا ہے کہ وہ وارسا پیکٹ کے دن واپس لانا چاہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو سوویت یونین کا دور واپس لانا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ یہ دیکھ چکے ہیں کہ وارسا پیکٹ کی تحلیل کے باوجود ناٹو کو تحلیل نہیں کیا گیا بلکہ اس کی توسیع کی جاتی رہی۔ یہاں تک کہ وارسا پیکٹ کے سابق ممبروں کو بھی اس میں شامل کیا گیا اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ اسی سے پوتن دلبرداشتہ ہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS