عبدالسلام عاصم
عصری منظر نامے پر اظہار خیال کرنے سے پہلے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ سننے والوں تک بات، مفہوم یامدعا کی رسائی ہو گی یا محض چند الفاظ لغوی معانی کے ساتھ پہنچیں گے اور اظہار خیال کرنے والے کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ کچھ عرصہ قبل ملک کے سیاسی اور سماجی حالات سے بیزاری کو بیداری میں بدلنے کیلئے بین فرقہ کوشش کرنے والوں نے فیض کی ایک نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کا سہارا لیا تھا۔ اُنہیں مطلق اندازہ نہیں تھا کہ بات بننے اور نہ بننے سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اس قدر بگڑ جائے گی کہ سنبھالے نہیں سنبھل پائے گی۔ بیشتر سننے والوں تک اِس نظم کا نہ مفہوم پہنچا نہ مافی الضمیر، بس چند ایسے الفاظ پہنچ گئے جن کی وجہ سے در پیش پریشانی، جس سے نجات مطلوب تھی، دوگنی سے بھی کئی گُنا زیادہ بڑھ گئی۔
زیادہ ترسننے والوں نے ارضِ خدا، اللہ اور بُت کے الفاظ کو سیاق و سباق سے بالکل اُسی طرح باہر نکال کر ہنگامہ کھڑا کیا جس طرح 70-75 سال پہلے برصغیر کو درپیش فرقہ پرستانہ بیماری کے نفسیاتی علاج پرعملِ جراحی کو ترجیح دینے والوں نے ایک دم سے چیرپھاڑ مچا دی تھی۔ نتیجے میں افغانستان کی سرحد تک بسیط ہندوستان کو دولخت ہونا پڑا تھا۔ یہ تجربہ قطعی طور پر ناکام رہا۔ اس کے باوجود سبق لینے کے بجائے 25 سال کے اندر ہی اِس ناکامی کا علاج ایک اور آپریشن سے کر کے جسم کے کٹے ہوئے حصے کا مزید ایک ٹکڑا الگ کر دیا گیا۔ خطے میں فرقہ وارانہ منافرت کا یہ عارضہ اب خارجی کے بجائے داخلی پھوٹ اور انتشار کا سبب بنا ہوا ہے۔ وطن عزیز میں بین فرقہ لال بجھکڑوں کی ٹولیاں اِن دنوں پانچ ریاستوں کے انتخابی میدان میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ گمراہ سیکولرسٹوں نے دینداری کی نمائش شروع کر رکھی ہے تو کچھ نے علم سے جہل کو بھنانے کی روایتی دکانوں کی سجاوٹ بڑھا دی ہے۔
اس پس منظر میں پرہیز کو علاج پر ترجیح دینے والوں کو یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کس سے بچا جائے اور کیا کچھ بچایا جائے! کہاں منھ کھولا جائے اور کہاں چپ رہا جائے!! ایسے میں چند روز قبل ہمارے ایک کرم فرما نے موجودہ حالات پر اظہار افسوس کے لیے اکبر الٰہ آبادی (پریاگ راجی) کے چند مصرعوں کا سہارا کیا لیا، مجھے ایکدم سے فیض کی نظم کا انجام یاد آگیا۔ اکبر کے وہ اشعار کچھ اس طرح تھے:
قوم سے غافل رہو تو طعنۂ حالی سنو
قوم کی خدمت کرو تو قوم کی گالی سنو
کیا پتے کی بات اِک مرد ِقلندر نے کہی
گولی مارو قوم کو اور ڈٹ کے قوالی سنو
دوسرے شعر کا آخری مصرع سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اندیشوں کے کالے بادل چھا گئے جن میں دیر تک کہیں سے چھن کر امکان کی روشنی نہیں آئی تو میں نے اپنے کرم فرما کو اُس اندھیرے میں ہی احتیاط سے قدم اٹھانے کا مشورہ دیا اور یہ کہنے سے بازنہیں رہ سکا کہ ’’بھائی جان، آمنا و صدقنا تک محدود ذہن رکھنے والوں کی اکثریت اب کسی لفظ یا جملے کے مفہوم تک رسائی کی متحمل نہیں رہی،وہ صرف لفظ اور اُس کے لغوی معنی پر ردعمل دکھاتی ہے۔ کسی کی بات سن کر سمجھنے اور مافی الضمیرتک پہنچنے سے کسی کو نہ رغبت ہے نہ فرصت۔ کچھ لوگوں کیلئے یہ بہ اندازِ دیگر ڈیجیٹل عہد ہے جس میں اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے ظلمت پسندی پھیلانے کا کام لیا جاتا ہے۔ فیض احمد فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کے بعض الفاظ ’’بالواسطہ‘‘ مفہوم کچھ اور رکھتے تھے لیکن اُن کے لغوی معانی تک ’’ راست‘‘ رسائی تک محدود ذہن رکھنے والوں کا ردعمل کتنا شدید تھا یہ ہم سبھی دیکھ چکے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی کے مذکورہ اشعار میں بھی ’’قوم کو گولی۔۔۔” سے جو راست لفظی مطلب نکل رہا ہے وہیں تک عام عصری ذہن کی رسائی بھی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ذہن کے استعمال میں یہ کفایت شعاری الحمدللہ دیر و حرم کی ہی دین ہے۔ابھی گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک محترم دوست نے گلزار دہلوی کی تصویر ڈالی تھی۔ اس میں انہوں نے گلزار صاحب کے نام کے ساتھ مرحوم لکھ دیا تھا۔ رحمت الٰہی کو محدود دیکھنے والوں کے ایک حلقے نے اُس پر بھی اعتراض کیا تھا۔
بد قسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جس کی عمومی سوچ بس ’’سُننے‘‘ اور ’’عمل کرنے‘‘ تک محدود کر دی گئی ہے، عام لوگوں کو یہ سمجھانا انتہائی دشوار ہے کہ کسی چور، آبرو ریز یا موالی کا ہندو یا مسلمان ہونا انتظامی انصاف کی نظر میں اُس بدمعاش کے فرقے کی پہچان نہیں۔اس کے باوجود اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مذہبی جنون رکھنے والا ایک شخص یاایک حلقہ نفسیاتی طور پر اپنے پورے فرقے کو بدنام کر دیتا ہے۔ رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کی آڑ میں کیے جانے والے جرائم اور خرابی کے ذمہ دار بھلے مٹھی بھر ہوں لیکن وہ جس فرقے کی نمائندگی کرتے ہیں، اس پورے فرقے کو اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔
ہر عہد ایسے منظر ناموں کا پرانا یا تازہ ریکارڈ رکھتا ہے۔ پرانا ریکارڈ اُن اقوام کے پاس ہے جو علم کی روشنی میں اپنے تاریک ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ہیں۔ تازہ ریکارڈ وہ رکھتے ہیں جو تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے بجائے اُسے آج بھی دہرانے اور رٹنے میں لگے ہیں۔ علم اور جہل میں آنکھ مچولی کے عہد بہ عہد سفر کے جس مرحلے سے ہم لوگ گزر رہے ہیں، وہ سابقہ تمام ادوار سے اس لحاظ سے خطرناک ہے کہ اب اطلاعاتی ٹیکنالوجی تک ظلمت پسندوں کی بالواسطہ رسائی ہو گئی ہے۔جنوبی ایشیا بالخصوص برصغیر کا عصری منظر نامہ اسی صورتحال کا ترجمان ہے جس میں غیر ہم آہنگ فرقے صرف ایک دوسرے کو زک پہنچانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی پوری شناخت ختم کردینا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال کو بدلنے کیلئے ماننے سے جاننے تک کا سفر ناگزیر ہے۔ یہ سفر علم سے مشروط ہے، کسی عقیدے اور آستھا سے نہیں۔ وطن عزیز میں احکام خداوندی کی جگہ الگ الگ نظریات کی پیروی کرنے والے انسانوں کے پیدا کردہ حالات کا مقابلہ کر نے کیلئے کچھ (بزعم خود) ملی رہنمایان آج کل ملت سے فرقہ و مسلک سے بالاتر ہو کرمتحد ہونے کی اپیل کر رہے ہیں۔میرے خیال میں اکثریت یا اقلیت کے الگ الگ ایک ہونے سے کوئی اتحاد قائم نہیں ہو گا بلکہ خوفناک سے خوفناک ترین صف بندی سامنے آئے گی۔
خالقِ علم خدا کے نزدیک ہم سارے انسان اولاد ِآدم اور امتِ واحدہ ہیں۔ہمیں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ حیوانِ ناطق کے طور پردر اصل اپنے اندر موجود حیوانِ مطلق پر قابو پانے کیلئے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت کھوکھلے نعروں سے نہیں خداکی طرف سے عطا کردہ علم سے پوری ہوگی جو آج بھی موجود ہے، جس کے بل پر ترقی یافتہ اقوام دنیا کی تسخیر کا کارواں مقصد ِکن کی تکمیل کے رُخ پر مسلسل آگے بڑھار رہی ہیں۔ جو لوگ کسرتی بدن اور افرادی طاقت سے معاملات حل کرنا چاہتے ہیں وہ اہلِ علم کے نزدیک باطل پر ہیں کیونکہ جسمانی اور افرادی قوت کا یہ استعمال بنیادی طور پر انسانوں کی نہیں حیوانوں کی صفت ہے۔ ذہنی طاقت اور دل کے نرم جذبے سے کام لینے کی توفیق قدرت نے صرف انسانوں کو دی ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]