گیان واپی مسجد کا سچ

0

پروفیسرعتیق احمدفاروقی
گیان واپی مسجد کا معاملہ آج پھر بابری مسجدسے متعلق واقعات کو یاد دلارہاہے۔ پہلے کا پلاٹ آرایس ایس نظریات کے حامی سینئرکانگریس لیڈران نے تیار کیاتھا لیکن آج گیان واپی مسجد سے متعلق پلاٹ ناگ پور کے آشرواد سے موجودہ حکمراں جماعت کے جونیئرقائدین نے تیار کیا ہے ۔ سب کچھ اسی طرح ہورہا ہے جیسے ماضی میں بابری مسجد معاملے میں ہواتھا۔ دونوں ہی معاملوں میں ضلع سطح کی عدالتوں نے اہم کردار نبھایا تھا۔ کہانی کی شروعات اس طرح سے ہوتی ہے۔ کچھ خواتین نے بنارس کی ایک نچلی عدالت سے مسجد میں پوجا پاٹ کی اجازت مانگی ۔اس عدالت نے گیان واپی مسجد کے سروے کیلئے ایک کمیشن مقرر کردیا۔ مسجد کی انتظامیہ نے عدالت کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میںچیلنج بھی کیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاملے میں پچھلے تیس سالوں سے ایک اسٹے بھی موجود ہے جس کی خلاف ورزی نچلی عدالت نے کی۔ بہر حال ہائی کورٹ نے مسجدانتظامیہ کی عرضی کوخارج کردیا۔ مسجد انتظامیہ نے جس بنیاد پر ان خواتین کی عرضی کو چیلنج کیاتھا وہ تھی پلیسزآف ورشپ ایکٹ 1991 جسے کانگریس حکومت میں پارلیمان میں پاس کیا گیاتھا۔ اُس قانون کے مطابق بابری مسجد کو چھوڑ کر باقی تمام مذہبی مقامات کی وہی حیثیت رہے گی جو آزادی کے وقت 1947میں تھی۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اِس قانون کو عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کافیصلہ سناتے وقت آئین کی بنیاد کا خاص حصہ بتایاتھا۔اِس طرح قانونی طور پر کسی بھی مذہبی عبادت گاہ کی موجودہ صورت بدلنے پر کوئی بحث نہیں کی جاسکتی۔ کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ ہر پڑھا لکھا اورسنجیدہ انسان ، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو،یہ مانے گا کہ نچلی عدالت کی تمام موجودہ کارروائی غیرقانونی ہے۔
عدالت کے ذریعہ مقررہ کمیشن نے سروے کاکام مکمل کرلیا اورہندو فریق کے ایک وکیل نے کورٹ میں سروے رپورٹ پیش ہونے سے پہلے ہی یہ دعویٰ کیاکہ احاطہ میں اس مقام پر شیولنگ ملاہے جہاں نمازی نماز سے پہلے وضوکرتے ہیں۔ اِس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ذیلی عدالت کے قابل جج نے بنارپورٹ دیکھے ہوئے صرف ایک ہندو فریق کی عرضی پر وضوخانے کو بندکرنے ،نمازیوں کی تعداد محدود کرنے اوراس مقام کو سیل کرنے کا حکم ضلع مجسٹریٹ کو صادر کردیا۔پولیس اورسی آرپی ایف کے افسران کو بھی عدالت کی طرف سے اس طرح کے احکامات جاری کئے گئے۔ دوسری جانب مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کاالزام ہے کہ اسکی درخواست پر انہیں اپنا موقف رکھنے کاموقع نہیں دیاگیا۔ اس سلسلے میں ایک اوردلچسپ بات کا انکشاف یہاں ضروری ہے ۔ 16مئی کو جب سروے کی شروعات ہوئی تو ہندو فریق کے وکیل وشنو جین نے دھوکے سے موبائل حاصل کرلیا جو کہ سروے کے مقام پر ممنوع تھا۔ اس نے اپنے والد سے بات کرکے سروے کی رپورٹ لیک کردی اوران کو کورٹ بھیج دیا۔ ان کے والد نے کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے سروے کی تفصیل بتائی جس کافیصلہ کورٹ کی روایت کے مطابق دوبجے دن کے بعد ہونا چاہیے تھا مگر عدالت نے وشنو جین کے والد کی اپیل پر بارہ بجے دن میں ہی فیصلہ سنادیا۔ علاوہ ازیں بار ایسوسی ایشن کے آرڈر کے خلاف مسلمان فریق کی غیرموجودگی میں یہ فیصلہ سنایاگیااوروہ بھی بنارپورٹ کا جائزہ لئے ہوئے۔
بہر حال گیان واپی مسجد کی انتظامیہ نے سول کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور عدالت عظمیٰ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ اترپردیش کے گیان واپی مسجد کامپلیکس میں اس علاقہ کی حفاظت کرے جہاں ہندوؤں کے مطابق ایک شیولنگ پایاگیاتھا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا کہ کسی مسلمان کو نماز پڑھنے سے نہیں روکا جائے گا اورنہ ہی کوئی رکاوٹ پیدا کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے بعدکی سماعت میں بنارس کی سول عدالت کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ گیان واپی مسجد سروے تنازع سے متعلق معاملہ کی سماعت یافیصلہ نہ کرے۔ شیولنگ ملنے کے دعویٰ کو غلط قرار دیتے ہوئے مسجد انتظامیہ کے وکیل کا کہناہے کہ جسے وہ شیولنگ بتاتے ہیں وہ وضوخانہ کے درمیان لگاایک فوارہ ہے جو نیچے چوڑاہوتاہے اوراوپر تنگ ہوتا ہے۔ اس کی شکل شیو لنگ جیسی ہوتی ہے ۔پرلطف بات یہ ہے کہ سروے میں یہ نہیں کہاگیاہے کہ مسجد کمپلیکس میں شیو لنگ ملاہے بلکہ واضح کیاگیاہے کہ اس مقام پر شیولنگ جیسی شکل کی چیز ملی ہے۔ ہندوستان میں شیولنگ جیسی شکل کی چیزیں تولاکھوں مقام پرملیں گی ۔ مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولاناخالد سیف اللہ رحمانی نے کچھ اور باتوں کا انکشاف کیاہے ۔ جیسے انہوں نے بتایاکہ 1973میں دین محمدبنام اسٹیٹ سکریٹری میں عدالت نے زبانی شہادت اور دستاویزات کی روشنی میں یہ بات طے کردی تھی کہ یہ پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے اورمسلمانوں کواس میں نماز پڑھنے کا حق ہے۔ عدالت نے یہ بھی طے کردیاتھا کہ متنازع اراضی کاکتنا حصہ مسجد ہے اورکتنا حصہ مندر ہے، اسی وقت وضوخانہ کو مسجد کی ملکیت تسلیم کیاگیاتھا۔وقف بورڈ سول کورٹ کی اس کارروائی کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرچکاہے اورہائی کورٹ میں یہ مقدمہ زیرالتوا ہے۔ اس طرح تمام حقائق یہ بات واضح کرتے ہیںکہ حکمراں جماعت کا مقصد 2024 کے پارلیمانی انتخابات تک عوام کو مسجد- مندر اور آثارِقدیمہ کی عمارتوںمیں ہندو دیوی دیوتاؤں کی تلاش جیسے مدعوں میں الجھائے رکھنا ہے تاکہ بنیادی مسائل مہنگائی، بیروزگاری اورصحت وتعلیم کے کمزوربنیادی ڈھانچہ کی طرف سے ان کادماغ ہٹائے رکھاجائے اورانتخابات میں فتح بھی حاصل ہو۔ دانشوروں کوہمارے بھولے عوام ، خصوصاً اکثریتی فرقہ کے افراد کو یہ سمجھاناہوگا کہ جب تک وہ بیدار ہوں گے، اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی اور اللہ نہ کرے ہمارے ملک کی حالت تب تک سری لنکا سے بھی بدتر ہوچکی ہوگی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS