فلپائن:مسلم شہر کی بربادی کی داستان

0

سید خالد حسین
جنوب مشرقی ایشیائی ملک فلپائن کے بدعنوان ڈکٹیٹر فرڈینند ایمینول مارکوس اور اس کی عیش پسند بیوی امیلڈا کے اکلوتے بیٹے، فرڈینند ’بونگ بونگ‘مارکوس، فلپائن کے نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ 9 مئی کو ہونے والے انتخابات میں 64 سالہ ’بونگ بونگ‘ مارکوس نے اپنی قریبی حریف، 57 سالہ نائب صدر لینی روبریڈو کو جو کہ ایک آزاد خیال خاتون ہیں، دوگنے سے زیادہ ووٹوں سے ہرایا۔ڈکٹیٹر مارکوس کو 36 سال پہلے فلپائن عوام نے اس کی 21 سالہ ظالمانہ حکمرانی اور بدعنوانیوں کی وجہ سے ایک طاقتور انقلاب کے ذریعہ معزول کر دیا تھا۔ مارکوس خاندان ایک ایسے سیاسی قبیلے کا حصہ ہے جو کئی دہائیوں سے جنوب مشرقی ایشیا میں کلیپٹو کریسی کا مترادف ہے۔ (کلیپٹو کریسی ایسا نظام حکومت ہے جہاں عوام کے منتخب کردہ افراد بدعنوان ہوتے ہیں اور اپنی طاقت کے ناجائز استعمال سے اپنی دولت اور کاروبار میں بے دریغ اضافہ کرتے ہیں۔)
مارکوس نے اپنے دور حکومت میں ہزاروں مخالفین کو قتل اور تشدد کا شکار بنایا اور جیلوں میں ڈالا۔ 1986 میں وہ فلپائن کو دیوالیہ کر کے اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ کی ریاست ہوائی فرار ہو گیا، جہاں 3 سال بعد 69 سال کی عمر میں اس کی موت ہو گئی۔ امیلڈا،جو اب 93 سال کی ہے، ایک سزا یافتہ مجرم ہے۔ وہ دو دہائیوں تک فلپائن کی خاتون اول رہی اور اس دوران اس نے اور اس کے شوہر نے فلپائنی عوام کے 10 بلین امریکی ڈالر چرالئے۔’بونگ بونگ‘مارکوس کا فلپائن کے سترھویں صدر کی حیثیت سے انتخاب اس کے خاندان کی قسمت میں ایک ڈرامائی موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ فرڈیننڈ مارکوس کی ظالمانہ اور بدعنوان ڈکٹیٹرشپ کے باوجود گزشتہ چند برسوں سے ’بونگ بونگ‘ مارکوس کے حامی سوشل میڈیا پر اس کا ایسا پروپیگنڈا کر رہے تھے کہ نوجوان فلپائنیوں کو یہ یقین ہوگیا کہ فرڈیننڈ مارکوس کا دور امن اور خوشحالی کا سنہری دور تھا اور اسی یقین کے ساتھ انھوں نے اس کے بیٹے کو ملک کی باگ دوڑ سونپ دی۔’بونگ بونگ‘ مارکوس اقتدار سے دستبردار ہونے والے صدر روڈریگو ڈوٹرٹے کی جگہ لے رہے ہیں۔ ڈوٹرٹے کو، جنہوں نے جون 2016 میں اقتدار سنبھالا تھا، اپنی بے رحم پالیسیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ڈوٹرٹے نے منشیات کے اسمگلروں کے خلاف ایک بے رحمانہ مہم شروع کی اور پولیس اور vigilante گروہوں کے ہاتھوں 12,000 سے زیادہ منشیات کے مشتبہ افراد کو ہلاک کروادیا۔ اس کے چند ماہ بعد اور آج سے ٹھیک پانچ سال پہلے، یعنی 23 مئی 2017 کو، ڈوٹرٹے نے ملک کے تقریباً 25 لاکھ آبادی والے جنوبی جزیرے منڈاناؤ میں مارشل لاء لگا دیا اور سرکاری فوج کو اس مسلم اکثریتی علاقے کے اسلامی شہر مراوی پر، جس کو کہ ’فلپائن کا اسلامی دارالسلطنت‘ کہا جاتاہے، حملے کا حکم دیا۔ سرکاری فوج کے اس حملے کی وجہ سیکڑوں مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کے شہر کے کچھ حصوں پر قبضہ بتایا جاتا ہے۔ مراوی کا محاصرہ اور لڑائی پانچ ماہ تک جاری رہی۔ یہ جنگ فلپائن کی جدید تاریخ کی سب سے طویل شہری لڑائی بن گئی۔ اس خونی جنگ میں 1,200 سے زیادہ عسکریت پسند، فوجی، پولیس اور عام شہری مارے گئے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا سے داعش یعنی ISIS (عراق اور شام میں دولت اسلامیہ) کے عسکریت پسند فلپائنی جنگجوؤں کے ساتھ شامل ہوگئے تھے اور مراوی پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوج اور داعش کے حامیوں کے درمیان خونریز لڑائی نے زیادہ تر مراوی کو تباہ کر دیا۔ فلپائنی فوج کے اس ہمہ گیر حملے نے دو لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہر میں ہلاکت اور تباہی کا ایسا منظر چھوڑا جس کی مثال آج کے دور میں ملنا مشکل ہے۔ اس لڑائی میں ہزاروں گھر تباہ و برباد ہو گئے اور مراوی شہر اور قریبی قصبوں اور دیہاتوں کے تقریباً چھ لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے۔ شہر پر گولی باری نے تمام عمارتوں، مکانات اور مساجد کو سوراخوں سے چھلنی کر کے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔
پانچ سال بعد شہر کے کچھ حصے آج بھی تباہ حال ہیں۔ ہزاروں لوگ ابھی تک اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکے اور عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں۔ فوجی حملے کے جھٹکے اس شہر کے مکینوں کے ذہنوں میں ابھی بھی تازہ ہیں۔ آج رومن کیتھولک اکثریتی فلپائن میں اسلام کا گڑھ، جس کے باسی ماراناو کہلاتے ہیں، ایک بھوتوں کی نگری میں تبدیل ہو چکا ہے۔جنگ شروع ہونے کے پانچ ماہ بعد، یعنی 23 اکتوبر 2017 کوجب حکومت نے جنگ بندی اور مراوی کی آزادی کا اعلان کیا تو مورو مسلمانوں اور مراوی کے مقامی لوگوں کے پاس اپنے گھروں کے ملبے اور خاندان کے افراد کی بے دفن ہڈیوں کے علاوہ کچھ نہیں بچا تھا۔ جنگ سے بے گھر ہونے والوں میں سے بہت سے لوگ اب بھی تنگ انخلا کے مراکز میں مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بے مثال ریکارڈ ہے۔ڈوٹیرٹے نے منڈاناؤ میں مارشل لاء نافذ کرنے کے اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا لیکن کہا کہ ISIS فلپائن کو کیمپ لگانے اور کافروں کو قتل کرنے کیلئے ’منطقی جگہ‘ کے طور پر منتخب کر سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ داعش کے عسکریت پسندوں کا خطے میں انڈونیشیا اور ملیشیا کو اپنی اگلی خلافت کے طور پر منتخب کرنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ ان ممالک میں مسلمانوں کا غلبہ ہے۔ ’انہیں مشرق وسطیٰ سے باہر دھکیلا جا رہا ہے۔ اب وہ یہاں جنوب مشرقی ایشیا میں خلافت قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ کیمپ لگانے کے لیے کون سا ملک سب سے زیادہ مثالی ہوگا؟‘
مراوی کے محاصرے کے تقریباً پانچ سال بعد ڈوٹرٹے نے بالآخر ایک قانون پر دستخط کیے جس کا مقصد مراوی کے باسیوں کے تعلق سے لڑائی اور بمباری سے بے گھر ہونے کی تلافی کرنا تھا۔ ’مراوی کمپنسیشن ایکٹ‘، جس پر ڈوٹرٹے نے اپریل میں دستخط کیے، ایک نو رکنی معاوضہ بورڈ کی تشکیل کی اجازت دیتا ہے لیکن اس قانون میں یہ اعداد و شمار نہیں بتائے گئے کہ مراوی کے باسیوں کو لڑائی کے دوران تباہ ہونے والے گھروں یا جائیدادوں کی تلافی کے لیے کتنی رقم مل سکتی ہے۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ڈوٹرٹے کو اس قانون پر دستخط کرنے کیلئے اپنی مدت کے آخری چند ہفتوں کا کیوں انتظار کرنا پڑا۔اس سے قبل فروری میں ہاؤسنگ سیکرٹری ایڈورڈو ڈیل روزاریو نے کہا تھا کہ ڈوٹرٹے کے 30 جون کو عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل مراوی کی بحالی کا کام ’90سے 95 فیصد مکمل ہو جائے گا‘۔ یہ ایک بہت ہی غیر حقیقت پسندانہ وعدہ تھا کیونکہ اب تک مراوی شہر کی بحالی کیلئے بہت کم کام کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے جنوری میں مراوی کی ٹاسک فورس نے فخر کے ساتھ دعویٰ کیا تھا کہ وہ بڑے پیمانے پر بحالی کے کاموں کو مکمل کرنے کے میں مصروف ہے اور شہر کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے یا ’گراؤنڈ زیرو‘ کے اندر حالات معمول پر آ گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’گراؤنڈ زیرو‘ ابھی بھی بھوتوں کی نگری بنا ہوا ہے۔ مورو مسلمان مارانوس اور سپورٹ گروپس نے ’مراوی کمپنسیشن ایکٹ‘ کے نفاذ کو سراہتے ہوئے کہا کہ ڈوٹرٹے نے 2017 کی خونریز لڑائی میں ان کے بیشتر گھروں اور کاروبار کو تباہ کرنے کے بعد ان کی ’جدوجہد اور مصائب میں راحت‘ کی پیشکش کی ہے۔ لیکن ڈوٹرٹے کی تعمیر نو کی کوششوں کے باوجود شہر کے بڑے حصے ابھی تک غیر آباد ہیں اور ہزاروں خاندان اب بھی شہر کے مضافات میں پھیلی عارضی پناہ گاہوں اور خیموں میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں بہت خطیر سرکاری امداد ملتی ہے۔ جنگ سے متاثر کئی دوسرے لوگوں نے کہیں اور پناہ لے رکھی ہے۔ڈوٹرٹے کے نئے وضع کردہ قانون کے مطابق معاوضے کے حق دار صرف وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے مراوی کی لڑائی کے نتیجے میں جائیداد اور جانیں گنوائیں۔ یہ قانون جس معاوضہ بورڈ کی تشکیل کی اجازت دیتا ہے وہ ایک نیم عدالتی ادارہ ہے اور اس کے اراکین صدر کے ذریعہ مقرر کیے جاتے ہیں، لیکن جس سست رفتاری سے بیوروکریسی کام کرتی ہے اس کے پیش نظر معاوضہ بورڈ کی تشکیل میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ اس کے بعد فنڈنگ کا معاملہ ہے، جس کیلئے سال کے آخر تک سالانہ بجٹ کی منظوری تک انتظار کرنا پڑے گا۔ نئی حکومت کے لیے، جو 30 جون کے بعد اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے گی، یقیناً ایک بہت اہم کام کورونا کی وبا سے تباہ شدہ معیشت کو بحال کرنے کا ہوگا۔ لیکن آنے والی انتظامیہ کیلئے مراوی کی تعمیر نو ترجیح کا معاملہ ہونا چاہیے کیونکہ اس تباہ شدہ شہر کے لوگ ایک طویل عرصے سے مشکلات جھیل رہے ہیں اور ان کی زندگیوں کی تعمیر نو کی امیدیں نوکر شاہی کی غلطیوں اور بے ضابطگیوں کی وجہ سے بار بار ٹوٹ چکی ہیں۔ حکومت کا بنیادی تخمینہ تھا کہ مراوی کی تعمیر نو پر ایک بلین امریکی ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی۔ اس تعمیر نو میں مدد کیلئے ایک متعدی توانائی موجود تھی۔ غیر سرکاری گروپوں کے ذریعہ کنسرٹس جیسے فنڈ اکٹھا کرنے والے پروگرام منعقد کیے گئے تھے۔ انسانی امداد کے وعدے بھی سامنے آئے۔ یوروپین یونین نے 850,000 یوروز دینے کا وعدہ کیا۔ ترکی نے بے گھر اسکول کے بچوں کیلئے خوراک کی امداد پر توجہ مرکوز کی۔ ملیشیا نے خوراک اور طبی سامان کی منصوبہ بندی کی۔ امریکہ نے تقریباً 20 ملین ڈالر مالیت کا پینے کا پانی، حفظان صحت کی کٹس، انخلا کے لیے پناہ گاہ کا سامان اور بے گھر خواتین اور بچوں کے تحفظ کے پروگراموں کیلئے سامان فراہم کیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مراوی تیزی سے صحت یابی کی طرف گامزن ہے۔ لیکن پانچ سال بعد اب ایسا لگتا ہے کہ مراوی کو ڈوٹرٹے کے مطابق ’ایک بار پھر ایک خوشحال شہر کے طور پر ابھرنے‘ کیلئے حکومت کی کوششیں اپنا اثر کھو چکی ہیں۔’بونگ بونگ‘ مارکوس کیلئے، جس نے ’تمام فلپائنیوں کے لیے‘ لیڈر بننے کا عزم کیا ہے، سب سے بڑا چیلنج اس تباہ شدہ شہر کی تعمیر نو کرنا ہے۔ ڈوٹرٹے کا بنایا ہوا نیا قانون ان لوگوں میں شدید توقعات کا احساس پیدا کرتا ہے جنہوں نے اپنی پریشان زندگیوں کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے5 سال انتظار کیا۔ بیشک اس قانون کا نفاذ، جو کہ نو منتخب صدر کو ڈوٹرٹے کے ہی پیدا کردہ ایک مسئلہ کی شکل میں وراثت میں ملے گا، ایک مشکل چیلنج ثابت ہوگا۔r
(مضمون نگارانگریزی اور اردو کے سینئر صحافی ہیں اور سنگاپور میں مقیم ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS