دنیا میں آج تک جتنی جنگیں لڑی گئی ہیں، ان سب کا مقصد ’ قیام امن ‘ بتایاگیا تھا۔ آج پھر اسی ’قیام امن ‘ کے نام پرایک اور عالمی جنگ کا خطرہ اپنے عرو ج پر ہے۔روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے امریکہ اور مغربی ممالک کی تمام تنبیہات کو نظر انداز کرتے ہوئے روسی افواج کو مشرقی یوکرین میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے دو علاقوں میں داخل ہوکر وہاں ’ امن قائم‘ کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ روسی صدر نے گزشتہ رات ہی مشرقی یوکرین کے دو علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک کو علیحدہ آزاد ملک کا درجہ دے کر یوکرین کی سرحد پر تعینات تقریباً 2 لاکھ روسی افواج کے ان علاقوں میں داخل ہونے کا راستہ صاف کر دیا تھا۔ صدر پوتن کے اس اقدام سے یوکرین میں جنگ کا بحران شدید ہوگیا ہے اور جنگ ناگزیر محسوس ہورہی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان نے وہاں مقیم اپنے شہریوں کو منتقل کرنے کی کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ یوکرین اوراس کے سرحدی علاقوں میں 20ہزار سے زیادہ ہندوستانی رہتے ہیں جن کی نکاسی کیلئے حکومت نے خصوصی پروازوں کا اعلان کیا ہے۔ یوکرین کے دارالحکومت کیف(Kyiv) میں واقع ہندوستانی سفارت خانہ نے اس کیلئے باقاعدہ ایڈوائزری بھی جاری کردی ہے۔امریکہ تو جنوری کے آخری دنوں میں ہی اپنے شہریوں کودھیرے دھیرے انخلا کراچکا ہے۔
درحقیقت سوویت یونین تحلیل کے بعد ہی یوکرین، روس سے الگ ہوگیا تھا لیکن یوکرین میں بدعنوانی اور تقسیم کے معاملہ میں طویل جدو جہد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مغربی یوکرین مغربی یوروپ کے ساتھ قربت کی حمایت کرتا ہے، جب کہ ملک کا مشرقی حصہ روس کے ساتھ قربت کا حامی ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان تعلقات 2014 میں مزید خراب ہوگئے تھے۔ سوویت رہنما نکیتا خروشچیف نے 1954 میں جس علاقہ ’کریمیا ‘ کو بطورتحفہ یوکرین کو دیاتھا، اسے روس نے اپنے میں ضم کرلیا۔اس دوران یوکرین کی حکومتی افواج اور روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے درمیان مسلح تصادم میں 14 ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ ادھر روس نے گزشتہ کئی مہینوں میں دھیرے دھیرے کرکے یوکرین کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحد پر تقریباً دو لاکھ افواج تعینات کردی۔ جنوری کے وسط میں روس نے یوکرین اور روس کی سرحد سے متصل بیلاروس میں مشترکہ فوجی مشقوں کیلئے فوج بھی بھیجنی شروع کی تھی۔ لیکن اسی دوران امریکہ نے یوکرین کوا سٹرٹیجک اورمالی مدد فراہم کر کے روس کے مقابل یوکرین کا ہاتھ مضبوط کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔ امریکہ کے صدر جوبائیڈن باربار روس کو خبر دار کررہے ہیں کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو روسی صدر ولادیمیر پوتن پچھتائیں گے۔روس- یوکرین بحران پر امریکہ اور مغربی ممالک کے اتحاد نے دو روز قبل ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی بلایاتھااور روس اگر یوکرین کے دو باغی اور علیحدگی پسند علاقوں کو آزادملک تسلیم کرتا ہے تو یہ خطہ میں جنگ کو ہوا دینے کا سبب بنے گا۔ امریکہ نے یہ دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر ’ایک روسی فوج‘ بھی جارحانہ انداز میں یوکرین میں داخل ہوئی تو امریکہ اور اس کے اتحادی جوابی کارروائی کریں گے۔ کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک امریکہ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ لیکن روس نے ان تمام تنبیہات کو نظرانداز کرتے ہوئے نہ صرف ڈونیٹسک اور لوہانسک کو علیحدہ آزاد ملک کا درجہ دے دیا بلکہ وہاں اپنی افواج بھی بھیج دی ہے۔
اب یوکرین میں روسی افواج کے داخلہ کے بعد کسی بھی وقت شروع ہوجانے والی یہ جنگ صرف یوکرین اور روس کے مابین ہی نہیں رہے گی بلکہ حالات ایسے ہیں کہ یوکرین کی حمایت میں امریکی اور دیگر مغربی ممالک کی فوجیں بھی صف آرا ہوں گی۔ میدان جنگ بھلے ہی یوکرین ہوگا لیکن یہ عالمی جنگ ہوگی۔ سقوط کے بعد بھی روس مسلسل اس کوشش میںہے کہ وہ پھر سے عظیم سوویت یونین بن جائے۔ مغربی ممالک اور امریکہ کو خطہ سے دور رکھنے میں روس کیلئے یوکرین اہم ترین اسٹرٹیجک اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ اگر روس، یوکرین پر اپنا تسلط برقرار رکھتا ہے تو امریکی حمایت یافتہ مغربی طاقتوں کو سر اٹھانے کا موقع نہیں مل پائے گا۔ روس اپنی اس حکمت میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔ چین اپنی مکمل حمایت کے ساتھ روس کی پشت پر کھڑا ہے۔جب کہ امریکہ یوکرین کی سرپرستی کے بہانے اپنے اتحادیوں کے ساتھ روس پر حملہ آور ہونے کا منتظر ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا کورونا وبا کی وجہ سے گزشتہ دو برسوں سے صحت اور معاشی چیلنجز سے گزر رہی ہے۔دنیا کے ہر ملک کا عام آدمی اپنی روزی روٹی کیلئے پریشانیوں سے جوجھ رہاہے یہ ممکنہ جنگ ’ پرامن دنیا‘کیلئے اچھی علامت نہیں ہوسکتی ہے۔روس نے یوکرین میں اپنی افواج داخل کرکے امریکہ اور نیٹو اتحاد کوبہانہ فراہم کردیا ہے۔ اگر جنگ شروع ہوئی تو یہ خوفناک ترین تیسری عالم گیر جنگ ہوگی۔ دنیا کو اس جنگ سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ پوری عالمی برادری متحد ہو اور جنگ کو روکنے میں اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے۔
[email protected]
تیسری عالمی جنگ کا خطرہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS