عبداللطیف ندوی
گزشتہ تقریباً ایک ہفتہ قبل بھانجھے کی ایک تقریب میں شرکت کا تجربہ ذہن کو بوجھل کر گیا۔ ایک طرف عزیز کی خوشیوں میں شریک ہونے کا جذبہ تھا تو دوسری طرف وہاں پیش آنے والے مناظر نے دل کو افسردہ کر دیا۔ یوں لگتا تھا جیسے اسلامی تعلیمات اور سماجی اقدار کا پاس و لحاظ بالکل مفقود ہو گیا ہو۔ایک واضح چیز جو بار بار سامنے آئی وہ بے حجابی اور مرد و زن کا غیر مناسب اختلاط ہے۔ نوجوانوں کو آزادانہ طور پر غیر محرم عورتوں میں گھومتے دیکھنا انتہائی تشویشناک ہے۔ اسلام نے حیا اور پردے کو ہر مرد و عورت کے لئے ایک لازمی اصول قرار دیا ہے مگر اس تقریب میں ہر جانب اس اصول کی پامالی نظر آرہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہم نے اسلامی حدود و قیود کو بس روایتی تقریبات کی نذر کر دیا ہے اور اس بات کی فکر بھی نہیں کہ یہ بے پردگی اور اختلاط کسی کی زندگی میں کیسے اثرات چھوڑ سکتا ہے۔
پھر تصویر کشی کا بھی ایک جنون تھا۔ اکثر اشخاص اپنے لمحات کو کیمرے میں قید کرنے اور پھر انہیں سوشل میڈیا پر شیئر کرنے میں مگن تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک دوسرے کی تصاویر لیتے ہیں غیر محرم، مرد و عورتوں کی تصاویر کھینچتے ہیں اور انہیں بلا سوچے سمجھے پھیلا دیتے ہیں۔ اسلام کی نظر میں یہ فحاشی کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔ خاص طور پر جب ان تصاویر میں بے پردگی شامل ہو تو اس کا نقصان مزید بڑھ جاتا ہے اور پھر فضول خرچی کا جو طوفان تھا اس نے مزید دل دکھایا۔ سجاوٹ، کھانے پینے اور ملبوسات پر بے دریغ پیسہ خرچ کیا گیا تھا۔ یہ بھی بھول گئے کہ اسلام میں اسراف اور فضول خرچی کو کتنا ناپسند کیا گیا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا یوں بے جا استعمال نہ صرف اللہ کی ناراضگی کو دعوت دیتا ہے بلکہ اس سے معاشرے میں مالی بگاڑ اور طبقاتی فرق بھی پیدا ہوتا ہے۔
سب سے زیادہ دل کو دھچکا ان لوگوں کو دیکھ کر لگا جو دینی احکام سے واقفیت رکھتے ہیںاور معاشرے کے لئے ایک مثال سمجھے جاتے ہیں مگر اس تقریب میں انہی لوگوں نے اسلامی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا۔ ایسے لوگ جو دوسروں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہونے چاہئیں خود اپنے عمل سے دین کے اصولوں کی نفی کر رہے تھے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے دین کو اپنی زندگی کے ہر گوشے سے جدا کر دیا ہے۔ مزید سونے پر سہاگہ یہ کہ کچھ اہلِ علم اور عمومی طور پر لوگوں کا یہ کہنا کہ ’’ایک دن کی خوشی کی تو بات ہے!‘‘ اور زیادہ تکلیف کے باعث بنا۔ کیونکہ مذہب اسلام کے مطابق ہر لمحہ اور ہر عمل اللہ کی حدود کے اندر ہونا چاہیے۔ ’’ایک دن کی خوشی‘‘ یا کسی خاص موقع کے لئے اسلامی اصولوں کو ترک کر دینا نہ صرف دین کی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ اس سے معاشرتی اور اخلاقی بگاڑ کا بھی راستہ کھلتا ہے۔ اسلام نے ہمیں زندگی کے ہر لمحے میں اللہ کی اطاعت کی ہدایت دی ہے۔چاہے وہ خوشی کا موقع ہو یا غم کا۔
دین سے دوری کی ایک اور المناک حقیقت:بھانجھے کی تقریب کے مثل شادی کی تقریب نے بھی ایک بار اور دل کو چھلنی کردیا۔ بے پردگی، غیر محرموں کا آزادانہ میل جول، فضول خرچی اور دیگر مجرمانہ عناصر (جن کو تحریر کرنا طوالت سے خالی نہیں ہے) اپنی انتہا پر تھے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مانجھے کی تقریب سے زیادہ اس میں شدت تھی۔ جبکہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ علماء و حفاظ بھی خاموشی سے اس ماحول کا حصہ بنے ہوئے تھے۔گویا دین کی پاسداری کسی اور وقت کی بات ہو۔
بے حیائی کی فضا میں کئی بار آنکھیں نم ہوئیں اور بعض اوقات بڑی مشکل سے ضبط بھی کیا۔ورنہ حالات قابو سے باہر ہو سکتے تھے۔ اس موقع پر عذاب الٰہی کو دعوت دینے والی حرکات دیکھ کر دل میں یہ سوال اٹھا کہ اگر دین کے رہنما ہی اسلامی حدود کا خیال نہ کریں تو دوسروں کو دین کی راہ کیسے دکھائیں گے؟
مزید برآں ایسی صورتحال دیکھ کر اس کے حل کی تلاش میں شدید پریشانی کا سامنا رہا۔ لیکن اب تک نہ کوئی حل نظر آیا اور نہ ہی کوئی نتیجہ نکلا۔ البتہ اپنے طور پر ایک عزم ضرور کیا کہ اب آئندہ اس طرح کی محافل میں کبھی بھی شرکت نہیں کروں گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
شادی میں بیجارسومات یا ’دباؤ‘کے منفی اثرات افراد کی ذاتی زندگی، ذہنی صحت، اور شادی کے تعلقات پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔جیسے ذہنی اور جذباتی دباؤ: شادی کی تیاری، توقعات، اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے افراد ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں، جس سے ان کی ذہنی سکونت متاثر ہو سکتی ہے۔ اس سے اضطراب، افسردگی، یا ناتواں محسوس ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ رشتہ میں کشیدگی: بیجار سومات یا ضرورت سے زیادہ توقعات کی وجہ سے رشتہ میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ اس سے جوڑے کے درمیان بات چیت کم ہو سکتی ہے اور غلط فہمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔معاشی مشکلات: شادی کے اخراجات، خصوصاً بیجار سومات کی صورت میں، مالی مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ اس سے دونوں شریک حیات کے درمیان تنازعہ یا پریشانی ہو سکتی ہے۔ مفاہمت کی کمی: اگر شادی کے فیصلے میں بڑی مقدار میں سماجی دباؤ ہو، تو یہ دونوں افراد کے درمیان سمجھوتے اور مفاہمت کی کمی کا باعث بن سکتا ہے، جس سے رشتہ میں عدم ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے۔ زندگی کے دوسرے شعبوں پر اثرات: شادی کے لیے بیجار سومات کے دباؤ سے کام، تعلیم، یا دیگر ذاتی اہداف پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔شادی کے فیصلے کو سمجھداری سے کرنا اور ایک دوسرے کی ضروریات و احساسات کو اہمیت دینا بہت ضروری ہے تاکہ اس کے منفی اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔
بہر حال اس طرح کی صورتحال دیکھ کر یہ سوچنا ضروری ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی ہم ان رسومات کو اسلامی دائرے میں محدود کر سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی خوشیوں کو مناتے ہوئے دینی احکام کا پاس رکھ سکتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے! تو پھر ہمیں اپنی تقریبات کو سادگی اور اسلامی حدود میں ڈھالنے کی طرف سنجیدہ قدم اٹھانا ہوگا۔