پنکج چترویدی
20نومبر 2024 کو جھارکھنڈ میں ہوئے اسمبلی الیکشن کی ووٹنگ میں سنتھال علاقے میں قبائلی آبادی کم ہونا ایک بڑا ایشو رہا ہے۔ اگر ہم سیاست سے ہٹ کر دیکھیں تو درحقیقت پورے ملک میں ہی ہر قبائلی برادری کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ یہ ووٹوں کے لیے اٹھائے جانے والا ایشو نہیں ہے بلکہ سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی تحقیقات کا موضوع ہے۔ جھارکھنڈ کی 70 فیصد آبادی کا تعلق 33 قبائلی برادریوں سے ہے۔ یہ چونکا دینے والی حقیقت آٹھ سال قبل ہی سامنے آگئی تھی کہ یہاں 10 ایسے قبائل ہیں جن کی آبادی میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ یہ نہ صرف معاشی، سیاسی اور تعلیمی لحاظ سے کمزور ہیں بلکہ ان کی آبادی میں مسلسل کمی کے باعث ان کے معدوم ہونے کا خطرہ بھی ہے۔ٹھیک اسی طرح کا بحران بستر علاقے میں بھی دیکھا گیا۔ جہاں چھتیس گڑھ ریاست کی آبادی کی شرح میں سالانہ اضافہ 4.32 فیصد ہے وہیں بیجاپور جیسے ضلع میں آبادی میں اضافے کے اعدادوشمار 19.30 سے کم ہوکر 8.76 ہوگئے۔ خیال رہے کہ ملک بھر میں دو تہائی قبائلی مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، اوڈیشہ، گجرات اور راجستھان میں رہتے ہیں اور یہیں پر ان کی آبادی مسلسل کم ہونے کے اعداد و شمار ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ انڈمان نکوبار اور کچھ شمال مشرقی ریاستوں میں گزشتہ چار دہائیوں میں کئی قبائل معدوم ہوگئے۔ ایک قبیلے کے ساتھ اس کی زبان، رسم و رواج، عقائد، ثقافت، خوراک، قدیم علم سب کچھ معدوم ہوجاتا ہے۔
جھارکھنڈ میں قدیم قبائل کی تعداد میں کمی کے اعداد و شمار بہت چونکانے والے ہیں، جو 2001 میں 3 لاکھ 87 ہزار سے کم ہو کر 2011 میں 2 لاکھ 92 ہزار رہ گئے۔ یہ قبائل ہیں-کنور، بنجارہ، بتھوڈی، بجھیا، کول، گوریت، کوڈ، کسان، گونڈ اور کورا۔ اس کے علاوہ مالتو-پہاڑیا، برہور، اسُر، بیگا بھی ایسے قبائل ہیں جن کی آبادی مسلسل کم ہو رہی ہے۔ انہیں ریاستی حکومت نے پی وی جی ٹی زمرے میں رکھا ہے۔ ایک بات حیران کن ہے کہ منڈا، اورانو، سنتال جیسی قبائلی برادریاں، جو سماجی، سیاسی، معاشی اور تعلیمی سطح پر آگے آئیں، ان کا اپنا متوسط طبقہ ابھر کر سامنے آیا، ان کی مردم شماری کے اعداد و شمار ملک کی مردم شماری کی توسیع کے مطابق ہی ہیں۔ بستر میں گونڈ، دورلے اور دھربے آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ پسماندہ رہے ہیں۔ کوریا، سرگوجا، کانکیر، جگدل پور، نارائن پور، دنتے واڑہ، سبھی اضلاع میں قبائلی آبادی تیزی سے کم ہوئی ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نکسل متاثرہ علاقوں میں پہلے سے ہی کم تعداد والی قبائلی برادریوں کی تعداد مزید کم ہوئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عام قبائلی امن پسند ہیں۔ ان کی جتنی بھی پرانی کہانیاں ہیں، ان میں ان کی دور دراز علاقوں سے ہجرت اور تنہائی کی بنیادی وجہ یہی اشارہ کرتی ہے کہ وہ کسی سے جنگ نہیں چاہتے تھے۔ آج بھی وہ نکسلی تشدد اور جوابی تشدد کی وجہ سے بڑی تعداد میں نقل مکانی کر رہے ہیں۔ بستر کے باساگڈ کو ہی لے لیں، یہ ایک شاندار بستی تھی، جس کی آبادی تین ہزار تھی۔ ایک طرف سلوا جوڈم نے زور مارا اور دوسری طرف نکسلیوں نے تشدد کیا تو آدھی سے زیادہ آبادی بھاگ کر تلنگانہ کے چیرلا کے جنگلات میں چلی گئی۔ صرف سکما ضلع سے پرانے تشدد کے دور میں ہجرت کرنے والے 15 ہزار خاندانوں میں سے آدھے بھی واپس نہیں آئے۔ ایک اور خوفناک بات یہ ہے کہ خاندانی بہبود کے اعداد و شمار مکمل کرنے کے لیے کئی بار ان مجبور، بے بس، لاعلم لوگوں کو چند پیسوں کا لالچ دے کر نس بندی کر دی جاتی ہے۔
مدھیہ پردیش میں 43 قبائلی گروہ ہیں جن کی آبادی تقریباً 1.5 کروڑ ہے۔ یہاں بھی بڑے گروپ تو ترقی کر رہے ہیں لیکن بہت سے قبائلی گروپ ناپید ہونے کے دہانے پر ہیں۔ ان میں بھیل بھلالہ قبائلی گروپ کی آبادی سب سے زیادہ (59.939لاکھ) ہے۔ اس کے بعد گونڈ برادری کی آبادی 50.931 لاکھ، کول قبائلیوں کی آبادی 11.676 لاکھ، کورکو قبائلیوں کی آبادی 7.308 لاکھ اور سہریا قبائلیوں کی آبادی 6.149 لاکھ ہے۔ ان کی آبادی میں اضافے کی شرح، بچوں کی شرح اموات وغیرہ میں نمایاں بہتری آئی ہے لیکن دوسری طرف برہول یا برہور قبائلی برادری کی آبادی صرف52 ہے۔ کوندھ گروپ (بنیادی طور پر اوڈیشہ میں رہنے والے) کی آبادی 109 ہے، پرجا کی آبادی 137 اور سونتا گروپ کی آبادی 190 ہے۔ اب ان کے یہاں بچے کم ہونا یا نہ ہونا، ایک بڑا مسئلہ ہے۔ درحقیقت ان کی برادری بہت چھوٹی ہے اور ان کی شادیاں چھوٹے گروپوں میں ہی ہوتی ہیں، لہٰذا جینیاتی وجوہات کی وجہ سے بھی اولاد نہ ہونے کا خدشہ ہے۔
ہندوستان میں قبائلیوں کی جغرافیائی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ یہ حقیقت ایک سرکاری رپورٹ میں سامنے آئی ہے کہ ملک کی تقریباً 55 فیصد قبائلی آبادی اپنے روایتی مسکن سے باہر نکل کر رہ رہی ہے۔ کاشتکاری یا جنگلات کی پیداوار پر اپنی زندگی گزارنے کے لیے انحصار کرنے والے قبائلیوںکے لیے قدرتی وسائل کم ہو گئے اور یہ معاشی بحران ان کی نقل مکانی کی وجہ بن گیا۔ یہ بات صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کی ’’ٹرائبل ہیلتھ آف انڈیا‘‘ کی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں تقریباً 10 کروڑ 40 لاکھ قبائلیوں کی کل آبادی میں سے نصف سے زیادہ 809 قبائلی اکثریتی علاقوں سے باہر رہتے ہیں۔ رپورٹ میں اس حقیقت کی تائید کے لیے2011کی مردم شماری کا حوالہ دیا گیا ہے۔ 2001 کی مردم شماری میں جن گاوؤں میں 100 فیصد قبائلی تھے، 2011 کی مردم شماری میں ان قبائلیوں کی تعداد 32 فیصد کم ہوگئی۔
سائنسی تحقیقی جریدے لینسیٹ میں شائع ہونے والی 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق قبائلی برداریوں کے لوگوں کی اوسط عمر 63.9 سال ہوتی ہے جو کہ غیر قبائلی افراد سے تین سال کم ہے۔ ایک قبائلی کی اوسط عمر 67 سال ہوتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ قبائلیوں میں صحت کی بہتر خدمات کا فقدان بھی ہے۔ ملک بھر میں ملیریا کی وجہ سے ہونے والی 50 فیصد اموات قبائلیوں میں ہوتی ہیں، کیونکہ انہیں صحت اور صفائی سے متعلق مسائل کے بارے میں بیدار نہیں کیا جاتا۔ قبائلی صحت کے مسائل میں دس سب سے بڑے مسائل ملیریا، بچوں کی شرح اموات، تغذیہ کی کمی، زچہ کی صحت، خاندانی منصوبہ بندی، منشیات کی لت، نشہ، سیکل سیل انیمیا وغیرہ اہم ہیں، اس کی بنیادی وجہ ناخواندگی سمجھی جاتی ہے۔ ٹرائبل ہیلتھ اِن انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے 42 فیصد قبائلی بچوں کا وزن اپنی عمر کے لحاظ سے کم ہے۔
ہر قبائلی برادری کا اپنا دائرۂ علم ہوتا ہے۔ ایک کمیونٹی کے معدوم ہونے کے ساتھ ہی ان کا آیوروید، جانوروں کی صحت، موسم، کاشتکاری وغیرہ کا صدیوں نہیں ہزاروں سال پرانا علم بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ ہماری سرکاری اسکیمیں ان قبائلیوں کی روایتوں اور انہیں ان کی اصل شکل میں محفوظ رکھنے کے بجائے ان کو جدید بنانے پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ ہم اپنا علم تو ان تک پہنچانا چاہتے ہیں لیکن ان کے علم کو محفوظ نہیں رکھنا چاہتے۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ جب ہم کسی قبائلی سے ملیں تو پہلے اس کے علم کو سنیں،پھر اسے اپنا نیا علم دینے کی کوشش کریں۔ آج ضرورت قبائلیوں کو ان کی اصل شکل میں بچانے کی ہے۔