چند یوم قبل تک دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو یہ گمان تھا کہ اس کی تربیت یافتہ اور جدید اسلحوں سے لیس افغان فورسز طالبان کو ٹھکانے لگادیں گی ۔ خود ا مریکہ کے صدر جوبائیڈن نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ مٹھی بھر سرپھرے طالبان 3لاکھ جوانوں پر مشتمل افغان فوج کا مقابلہ نہیں کرپائیں گے لیکن دنیا نے دیکھا کہ60ہزار نفوس پر مشتمل حقیر ساگروہ 3لاکھ جوانوں پر بھاری پڑا اور صدر مملکت اشرف غنی منھ چھپائے تاجکستان سدھار گئے۔ اب افغانستان کے طول و عرض پر طالبان کی حکمرانی قائم ہوگئی ہے ۔طالبان نے جس تیزرفتاری سے پیش قدمی کی ہے وہ دنیا کیلئے ابھی باعث حیرت و استعجاب تھی ہی کہ انہوں نے یہ بھی اعلان کردیا کہ وہ امروز و فردامیں باقاعدہ حکومتی ڈھانچہ بھی تشکیل دے رے ہیں۔
لیکن دنیا کو یہ صورتحال قبول نہیں ہے۔افغانستان پر طالبان کا قبضہ دنیا کیلئے باعث تشویش بن گیا ہے اور دنیا طالبان کی حکمرانی کو ظلم و استبداد سے تعبیر کررہی ہے۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ ایک عرصہ تک افغانستان میں منتخب جمہوری حکومت تھی جس پر طالبان نے شب خون مارا ہے۔لاکھوں بے قصور لوگ، بچے، بوڑھے اور خواتین کی جان و مال خطرے میں پڑگئی ہے۔ہندوستان سمیت پوری عالمی برادری کو یہ خدشہ ستارہا ہے کہ طالبان معصوم، کمزور، خواتین اور بچوں پر تباہی مچا سکتے ہیں۔ خواتین پر بہت سی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ جدید تعلیم فراہم کرنے والے اسکول اور کالج بند کر دیے جائیں گے۔ چھوٹے بچوں اور نوعمروں کو طالبان اور جہادیوں میں تبدیل کرنے کی پرانی روایت کو زندہ کیا جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ افغانستان سے طالبان کو بے دخل کرنے کیلئے دنیا پھر متحد ہو اور ا نہیں ایک بارپھر غاروں میں دھکیل دیاجائے۔
یہی صورتحال آج سے 20برس قبل بھی تھی، افغانستان پر طالبان کی ایک مستحکم حکومت تھی لیکن دنیا کو یہ منظور نہیں تھا۔ طالبان کو افغانستان کے منظرنامہ سے ہٹانے کیلئے پوری دنیا متحد ہوگئی۔ 9/11 حملہ کے مبینہ ملزم اسامہ بن لادن کی عدم حوالگی کا بہانہ بناکر امریکہ اور ناٹو کی افواج نے افغانستان پر چڑھائی کردی، بھرپور عسکری قوت کے ساتھ طالبان پر ٹوٹ پڑے۔ اخلاقی جرأت اور نظریات سے عاری دنیا بھر کی افواج 20 برسوں تک افغانستان کی پہاڑیوں کو افغانوں کے لہو سے لالہ زار کرتی رہیں ۔کوچہ و بازار پر بمباری اور گھروں کی تباہ کاری کو افغانستان میں جمہوریت کی بحالی اور سیاسی استحکام کا نام دیاگیا۔اس وقت نہ تو انسان کے بنیادی حقوق کی یادآئی، نہ کمزور اور معصوم عوام کی بے گور و کفن لاشوں نے انسانیت کو جھنجھوڑااور نہ ہی اسے ظلم و استبداد سے تعبیر کیاگیا ۔
امریکہ اوراس کے اتحادی ممالک نے القاعدہ کو ختم کرنے اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بھی افغانستان نہیں چھوڑا ۔سیاسی استحکام، امن و جمہوریت کی بحالی کا بہانہ بناکر طاقت کی حکومت قائم کردی گئی۔ طالبان کو صفحہ ہستی سے نابود و معدوم کردینے کے دعوے کیے جانے لگے،جسے پوری دنیا نے قبول کرلیا ۔
لیکن یہ حقیقت سراب ثابت ہوئی ا ور افغانستان میں استحکام اورا من لانے کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کیے بغیر ہی 20 برسوں بعد امریکہ کو لوٹنا پڑرہا ہے۔ ابھی امریکہ کی فوج پوری طرح سے افغانستان سے گئی بھی نہیںکہ جس افغان فوج کو امریکہ نے 20برسوں میں تربیت دے کر پروان چڑھایاتھا کہ وہ طالبان سے مقابلہ کیے بغیر ہی ریت کی دیوار کی طرح اوندھی گرگئی ۔
ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ افغانستان میں امن و جمہوریت کی بحالی اور سیاسی استحکام کی کون سی صورت ہوگی۔ گزشتہ 20 برسوں میں 2کھرب ڈالر خرچ کرنے اورہزاروں فوجیوں کی جانیں گنوانے کے بعد بھی امریکہ افغانستان میں سیاسی استحکام اور اپنی پسندیدہ جمہوریت بحال کرنے میں ناکام رہا تو ایسے میں کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ افغانستان میں ان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں دنیا کے سیاسی عمل میں حصہ دار بنایاجائے؟
ویسے بھی طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ان 20برسوں میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ بنیاد پرستی سے الگ ہٹ کر طرز حکمرانی اور دنیا کے ساتھ چلنے کا سلیقہ بھی انہیں آگیا ہے۔ روس اور چین جیسے ممالک بھی اس پر غور کررہے ہیں تودوسرے ممالک کوبھی اس پرغور کرنا چاہیے ۔ طالبا ن، افغانستان کیلئے ہندوستان سے ملنے والی امداد کے بھی معترف ہیں اور ہندوستان نے بھی افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، ایسے میں افغانستان سے رشتہ توڑنے سے قبل ہمیں بھی اس پرضرور غور کرناچاہیے۔
[email protected]
افغانستان میں طالبان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS