طالبان ہمارے نہیں!

0

انسانیت کہیں بھی کراہے گی تو درد دنیا کے سارے انسان محسوس کریں گے، البتہ وہ لوگ محسوس نہ کریں تو بات الگ ہے جن کا اپنا درد ہی درد ہوتا ہے، غیروں کا درد نہیں، اس لیے طالبان نے اپنی پہلی مدت کار میں عورتوں پر مظالم کا جو سلسلہ روا رکھا، عالمی برادری کی سمجھ میں یہ بات نہیں آسکی تھی کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ طالبان نے بچیوں اور لڑکیوں کے اسکولوں میں جاکر علم حاصل کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی جبکہ اسلام نے عورتوں اور مردوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا ہے۔ طالبان نے عورتوں کے لیے برقع کی پابندی عائد کر دی تھی جبکہ اسلام میں پردے کا مطلب برقع پہننا ہی نہیں ہے، ایسا لباس پہننا ہے جس سے جسمانی خطوط نمایاں نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کی حکومت ان لوگوں کو بھی خوفزدہ کرنے لگی تھی جو اسلامی تعلیمات پر بڑی سختی سے عمل کرتے ہیں۔ اس وقت طالبان حکومت نے یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی کہ ماضی میں اسلامی حکومتوں نے خوف و ہراس دور کر کے مثالیں قائم کی تھیں تو پھر وہ کیسی حکومت چلا رہے ہیں، کن اصول و ضوابط پر حکومت چلا رہے ہیں کہ لوگ خوفزہ ہیں۔ آج بھی وہ خوف لوگوں کے ذہن سے نکلا نہیں ہے، وہ پرامن زندگی جینے کے لیے افغانستان چھوڑ دینا چاہتے ہیں، گھٹ گھٹ کر مرنا نہیں چاہتے۔ گرچہ طالبان مسلسل یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ بدل گئے ہیں، پہلے جیسے نہیں ہیں لیکن ان کی حکومت کا انداز دیکھے بغیر ان کی باتوں پر یقین کیسے کر لیا جائے؟
طالبان پر دنیا اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے، خود افغان اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو ایسا ان سے کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے نہیں، ان کی داڑھی ٹوپی کی وجہ سے نہیں، ان کی سابقہ حکومت کی انداز حکمرانی کی وجہ سے ہے، یہ بات سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور کابل پر طالبان کے قبضے کا جشن نہیں منایا جانا چاہیے۔ ویسے بھی طالبان نے ہمارے ملک کے لیے ایسا کیا دوستانہ کام کیا ہے کہ ان کی حمایت کی جائے، ان کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھا جائے؟ اچھا آدمی وہی ہوتا ہے جو جس ملک میں رہے، اسی کے بارے میں سوچے، اس کی پالیسی کے تحت ہی حمایت یا مخالفت کا اظہار کرے۔ بات جہاں تک مسلمانوں کی ہے تو 1947 میں مذہب کے نام پر ایک ملک پاکستان بنا تھا مگر مسلمانوں نے پاکستان کو نظرانداز کرکے، یہیں رک کر اس خاموش فیصلے کا اظہار کر دیا تھا کہ انہیں اسی ہندوستان میں رہنا ہے جس کی مٹی میں ان کے آبا و اجداد مل چکے ہیں۔ وہ مسلمان سمجھدار تھے، وہ جانتے تھے، وطن بدل سکتے ہیں، سرزمین وطن سے قربت ختم نہیں کر سکتے، وطن کی مٹی کی خوشبو سانسوں سے کھرچ کر نہیں پھینک سکتے لیکن بعد کے دنوں میں ایسے بھی لوگ پیدا ہو گئے جو تھے مٹھی بھر مگر وہ پاک کرکٹ ٹیم کی جیت پر پٹاخے پھوڑا کرتے تو ہندوستان کے سبھی مسلمانوں کی حب الوطنی شبہات کے دائرے میں آ جایا کرتی تھی لیکن خوش قسمتی سے پاکستان سے ہونے والی ہر جنگ میں مسلمان متحدہ طور پر اپنے ملک کے ساتھ کھڑے رہے تو برادران وطن کو یہ سمجھنے کا موقع ملا کہ مسلمانوں کا جینا مرنا ہندوستان کے لیے ہے۔ اسی درمیان حوالدار عبدالحمید نے پاکستانی ٹینکوں کو توڑ کر اور اپنی جان وطن پر نچھاور کر کے پاکستان کو منھ توڑ جواب دیاتو اے پی جے عبدالکلام نے پوری زندگی وطن کو مستحکم بنانے میں صرف کر دی۔ ان دونوں کو برادران وطن نے جو محبت دی، اس سے یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ گئی کہ اگر آپ وطن کے لیے ہیں تو آپ کے لیے بھی وطن کے سارے لوگ ہیں۔ پھر ایسی صورت میں یہ گنجائش کہاں رہ جاتی ہے کہ طالبان کی جیت پر جشن منایا جائے یا ان کی حمایت کی جائے؟ آسام میں پولیس نے 14لوگوں کو طالبان کی حمایت میں سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے، یہ گرفتاریاں کئی اضلاع سے ہوئی ہیں۔ ان گرفتاریوں کی تصدیق اسپیشل ڈی جی پی، جی پی سنگھ نے بھی کی ہے اور لوگوں کو کارروائی سے بچنے کے لیے اس طرح کی پوسٹ کرنے یا اس طرح کی پوسٹ پر لائک کرنے سے بچنے کا مشورہ دیا ہے۔ اگر یہ گرفتاریاں نہ بھی کی جاتیں تب بھی کیا طالبان کی حمایت کرنا صحیح تھا؟ آخر طالبان نے انسانیت کے تحفظ کے لیے ایسا کیا کیا ہے کہ ان کی حمایت کی جائے؟ ہندوستانی ہونے کے ناطے بھی ہمارے پاس ان کی حمایت کرنے کا اب تک کوئی جواز نہیں ہے، البتہ طالبان اگرکبھی وطن عزیز ہندوستان سے دوستی کا عملی اظہار کرتے ہیں اور ہماری حکومت بھی یہ محسوس کرتی ہے کہ وہ واقعی ہندوستان کے دوست ہیں تو پھر حالات مختلف ہوں گے۔ وہ لوگ جنہیں کورونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کی شکایت میڈیا سے تھی، انہیں ایسا موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی پھر موضوع بحث بن جائے اور وہ سبھی مسلمان جو خواہ مخواہ کے تنازعات سے بچتے بچاتے زندگی گزارتے رہے ہیں، سبکی محسوس کریں۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ طالبان ہمارے نہیں ہیں اور ہم ان کے نہیں ہیں، ہم اپنے ملک ہندوستان کے ہیں اور جو ہندوستان کے لیے بہتر ہے وہی ہمارے لیے بہتر ہے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS