طالبان اور ہندوستانی میڈیا کا کھیل

0
dw

محمد حنیف خان

افغانستان میں طالبان کی بازآمد اور حکومت ایک حقیقت ہے،جسے دنیا دیکھ رہی ہے۔افغانستان میں امریکہ کی مداخلت کے بعد وہاں قائم جمہوری حکومت کے ساتھ مل کر اس کی تعمیر نو میں ہندوستان کا کلیدی کردار تھا،جس کی وجہ سے افغانی عوام ہندوستان کو تشکر کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔طالبان کی آمد کے بعد ہندوستان نے کسی بھی طرح کے رد عمل کا ابھی اظہار نہیں کیا ہے جو بہترین خارجہ پالیسی کا عکاس ہے۔ہندوستان کا یہ کردار غیر جانبدارانہ ہے لیکن ہندوستان کا میڈیا اورسوشل میڈیا انتہائی جانبدارانہ کردار کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔میڈیا جہاں تھنک ٹینک کی ذہنیت کا عکاس ہوتا ہے جو ذہن سازی کا کام کرتا ہے، وہیں سوشل میڈیا عوام کی طرز فکر کا عکاس ہوتا ہے۔اس وقت میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں طالبان کے پس پردہ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف جو طوفان برپا ہے وہ باعث تشویش ہے۔طالبان نے اپنی حکومت ہندوستان کے بجائے افغانستان میں قائم کی ہے،جس میں کسی بھی طرح سے ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی رول اور دخل نہیں ہے۔ افغانستان، وہاں کی حکومت اور طالبان یہاں تک کہ وہاں قائم رہ چکی جمہوری حکومت کسی سے بھی ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے،اس کا بھی ان سبھی مسائل سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کسی ہندوستانی غیرمسلم کا ہے۔اس کے باوجود افغانستان کے میدان میں ہمارا الیکٹرانک میڈیا ہندوستانی مسلمانوں کو گھسیٹ رہا ہے۔ بلاوجہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں خصوصاً دیوبند سے ذہنی و فکری تعلق رکھنے والوں کو نہ صرف کٹہرے میں کھڑا کر رہا ہے بلکہ ان کے خلاف رائے عامہ بنا رہا ہے۔میڈیا کا یہ کھیل اور ایجنڈا نہایت خطرناک ہے، اس کے بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ٹی وی چینل باقاعدہ پروگرام چلا رہے ہیں کہ طالبان کس فکر کے حامی ہیں اور ہندوستان میں ان کی فکر سے کون تعلق رکھتا ہے۔ایک چینل تو اسی پس منظر میں دارالعلوم دیوبند کی تصویر کا استعمال کرتے ہوئے اس کی تاریخ بتا رہا تھا،اس کا کہنا تھا کہ طالبان نے اپنی فکر اسی ادارے سے حاصل کی ہے جسے مولانا قاسم نانوتویؒ نے قائم کیا تھا۔دراصل اس کا مقصد ہندوستان کے پورے ایک طبقے کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنا ہے۔یہ اس سازش کا حصہ ہے جس کے تحت ہمیشہ مسلمانوں کو فکری سطح پر کمزور کیا جاتا رہا ہے۔دنیا میں کہیں بھی کچھ ہوتا ہے ہمارا الیکٹرانک میڈیا اس کا ہندوستانی کنکشن تلاش کرکے ہندوستان کے مسلمانوں کوکٹہرے میں کھڑا کرنے لگتا ہے۔اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ مسلمانوں میں احساس جرم پیدا ہو، ان کو کبھی اس احساس سے باہر نکلنے نہ دیا جائے۔یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جو فرد/طبقہ احساس جرم کا شکار ہوتا ہے وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا ہے کیونکہ اس کا احساس جرم کبھی اس کو آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ان میں کبھی تفوق کی ذہنیت ہی نہیں پیدا ہوتی ہے۔میڈیا کے اس ایجنڈے کا ایک منفی اثر یہ ہوگا کہ عام مسلمانوں اور خصوصاً دیوبندی فکر کے حامل افراد کے خلاف ملک میں ایک رائے ہموار ہوگی، ہر شخص ان کو ایسی نظروں سے دیکھے گا گویا یہ خود طالبان کا حصہ ہیں۔

طالبان کا کنٹرول افغانستان پر ہوا ہے لیکن ارادتاً یا غیرارادتاً ہندوستانی مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ کیا حکومت یا سوشل میڈیا(فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، یوٹیوب وغیرہ)کے پالیسی سازوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس وقت ہندوستان میں پورے ایک طبقے کے خلاف زہر پھیلایا جا رہا ہے؟ان دونوں کو بخوبی علم ہے لیکن وہ اس پر ایکشن کی ضرورت نہیں محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان پر کوئی دباؤ ڈالنے والا نہیں ہے۔

یہاں دوسوال پیدا ہوتے ہیں، اول یہ ہے کہ میڈیا کا اس طرح سے پورے طبقے کو کٹہرے میں کھڑا کرنا کیا میڈیا اصول کے مطابق ہے یا پھر اس کے خلاف ہے؟یہ سوال اگر میڈیا سے کیا جائے تو وہ اپنے عمل کا یہ کہہ کر دفاع کرے گا کہ اس نے تو صرف طالبان کی فکر اور اس کے منبع و مصدر پر رپورٹ نشر کی ہے جو عین میڈیا کے اصول کے مطابق ہے،بادی النظرمیں یہ جواب مناسب معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا یہ جواب کلی طور پر درست نہیں ہے کیونکہ اس اصول کے جلو میں وہ مخفی ایجنڈا ہے جس کے تحت ہندوستانی میڈیا کام کر رہا ہے۔رپورٹ میں جس طرح کی زبان استعمال کی کی جاتی ہے وہ کسی فرد /طبقہ/جماعت کے منابع و مصادر کی رسائی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا اسلوب اور طریقہ ہندوستانی مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے والا ہوتا ہے۔ یہی وہ دروازہ ہے جس سے میڈیا اپنے اصل مقاصد کا حصول کرتا ہے۔اس کے اس عمل کو ’ہندوستانی مسلمانوں کا میڈیا ٹرائل‘ کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر حکومت غیر جانبدار ہے،وہ طالبان یا ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق کسی بھی طرح کے رد عمل کا اظہار نہیں کررہی ہے تو پھر میڈیا کو کیا ضرورت ہے کہ وہ جانبداری کے ساتھ رپورٹ تیار کرے اور نشرکرے؟ اس کا بہت سیدھا سا جواب یہ ہے کہ میڈیا کو کسی فرد /طبقہ یا جماعت یہاں تک کی حکومت کی بھی فکر نہیں ہے بلکہ اس کو صرف اپنی ٹی آر پی سے مطلب ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو میڈیا میں طالبان اور ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق منفی رپورٹ نہ شائع ہوتیں۔حکومت کو ایسی رپورٹ کا ازخود نوٹس لینا چاہیے۔حکومت اپنے موقف کا اظہار ایک اسٹرٹیجی کے تحت نہیں کر رہی ہے،وہ ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر عمل کررہی ہے۔ جب مطلع صاف ہوجائے گا، وہ اپنے موقف کا اظہار کرے گی اور اپنی نئی پالیسی وضع کرے گی مگر اس سے پہلے ہمارا میڈیا ہندوستان کا وہ رخ پیش کر رہا ہے جو طالبان مخالف ہے،اس کا نتیجہ افغانستان میں بڑے پیمانہ پر ہندوستان کی سرمایہ کاری پر کس صورت میں نکلے گا، اس کی ذرا بھی فکر نہیں ہے۔ ہندوستانی حکومت کو میڈیا کو اتنی کھلی چھوٹ نہیں دینی چاہیے۔اگر حکومت اظہار رائے کی آزادی کی بات کہتی ہے تو اس کو دیکھنا چاہیے کہ اسی طرح کی رپورٹ کے جلو میں ہندوستانی مسلمانوں کو بھی بدنام کیا جا رہا ہے جو کسی بھی طرح سے درست نہیں ہے۔اس سے ملک میں آپسی روا داری اور ہم آہنگی پر کاری ضرب پڑتی ہے۔جو بچے آج افغانستان میں طالبان کی آمد اور حکومت سے متعلق رپورٹ دیکھ رہے یا پڑھ رہے ہیں،جن میں ان کا منفی رویہ پیش کرنے کے بعد بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے اس عمل کے لیے لائسنس ہندوستان کے مدرسہ سے حاصل کیا ہے،سوچئے اس طبقے سے متعلق عوام کی سوچ کیسی بنے گی؟بلاوجہ ہندوستانی مسلمانوں کو گھسیٹ کر بدنام کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کی رپورٹ پر قدغن لگائے۔
دوسری طرف سوشل میڈیا ہے جس پر طالبان سے زیادہ ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق منفی مواد اپلوڈ کیا جا رہا ہے۔ کوئی بھی میڈیا رپورٹ دیکھ لیجیے اس کے کمنٹ سیکشن میں جایئے تو وہاں اس رپورٹ پر رائے کا اظہار کرنے کے بجائے ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق منفی کمنٹ ہوں گے۔کہیں ان کو اکسایا جا رہا ہے تو کہیں ان کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے،کہیں ان کو چِڑھایا جا رہا ہے تو کہیں ان کو غصہ دلایا جا رہا ہے۔ان کمنٹس(تبصرے) کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا نے جس مقصد سے طالبان کے تناظر میں ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق رپورٹ تیار کر کے نشر کی، اس میں وہ کامیاب ہوگیا ہے۔برسوں سے میڈیا اس ایجنڈے پر کام کر رہا ہے جس میں وہ آج بھی مصروف ہے،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ طالبان کا کنٹرول افغانستان پر ہوا ہے لیکن ارادتاً یا غیرارادتاً ہندوستانی مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ کیا حکومت یا سوشل میڈیا(فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، یوٹیوب وغیرہ)کے پالیسی سازوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس وقت ہندوستان میں پورے ایک طبقے کے خلاف زہر پھیلایا جا رہا ہے؟ان دونوں کو بخوبی علم ہے لیکن وہ اس پر ایکشن کی ضرورت نہیں محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان پر کوئی دباؤ ڈالنے والا نہیں ہے۔ بہرحال جس طرح کی رپورٹیں نشر کی گئی ہیں اور جس طرح کے تبصرے سوشل سائٹ پر مسلمانوں سے متعلق ہو رہے ہیں، اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے یہ ان کو معلوم ہونا چاہیے، اس پر قدغن کے لیے ان کو کوئی لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS