مدرسہ تعلیم: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگائی

0

نئی دہلی (یو این آئی): سپریم کورٹ نے جمعہ کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے 22 مارچ 2024 کو ‘اتر پردیش مدرسہ بورڈ ایجوکیشن ایکٹ 2004’ کی دفعات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے منسوخ کرنے کے فیصلے پر روک لگا دی۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو 2004 کے قانون کی پہلی نظر میں غلط تشریح قرار دیا اور کہا کہ ہائی کورٹ کی ہدایت سے 17 لاکھ طلباء کے حقوق متاثر ہوں گے۔ خصوصی تعلیم کا انتخاب ہمیشہ طلباء اور ان کے والدین کا انتخاب رہا ہے۔

بنچ نے کہا “اس بات کو یقینی بنانے میں ریاستوں کے جائز مفادات ہیں کہ طلباء معیاری تعلیم سے محروم نہ رہیں۔ کیا اس مقصد کے لیے پورے قانون کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔”

بنچ نے اپنے حکم میں کہا کہ ہائی کورٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ 2004 کا ایکٹ سیکولرازم اور بنیادی ڈھانچے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تاہم یہ نتائج مدرسہ بورڈ کو تفویض کردہ ریگولیٹری طاقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ آئین کے آرٹیکل (1)28 میں التزام ہے کہ حکومت کی مدد یافتہ اداروں میں کوئی مذہبی تعلیم نہیں دی جائے گی۔

اتر پردیش حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً 17 لاکھ طلباء کو باقاعدہ اداروں میں جگہ دی جا سکتی ہے اور اگر اس فیصلے پر روک لگا دی گئی تو ریاست کو 1096 کروڑ روپے کا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔
اٹارنی جنرل آر وینکٹرامانی نے کہا کہ مذہب کو الجھانا اپنے آپ میں ایک مشکوک مسئلہ ہے، جس پر غوروخوض کی ضرورت ہے۔

سینئر وکیل اے ایم سنگھوی، مکل روہتگی، پی ایس پٹوالیا، سلمان خورشید اور مینکا گروسوامی اور دیگر نے درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوکر ہائی کورٹ کے فیصلے کی صداقت پر سوال اٹھایا۔

انہوں نے دلیل دی کہ ہائی کورٹ نے ‘حکمنامہ’ پاس کرکے ان مدارس کو متاثر کیا ہے جو 1908 سے ریگولیٹری نظام کے تحت چلائے جارہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 17 لاکھ طلباء کے علاوہ 10 ہزار اساتذہ بھی ہائی کورٹ کے فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں۔

عرضی گزاروں نے بنچ کے سامنے کہا کہ پورے ملک میں گروکل اور سنسکرت اسکول ہیں۔ مسٹر روہتگی کے پاس شیموگا ضلع کے ایک گاؤں کی مثال ہے، جہاں لوگ سنسکرت کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں بولتے ہیں۔

مزید پڑھیں:بنگلورو کیفے دھماکہ کے معاملے میں این آئی اے نے بی جے پی کارکن کو حراست میں لیا

درخواست گزاروں کے وکلاء نے کہا “کیا ریاست امداد فراہم کرکے سیکولرازم کی خلاف ورزی کر رہی ہے؟ کیونکہ ہم اسلام کی تعلیم دیتے ہیں، اس لئے یہ ادارہ مذہبی تعلیم فراہم کرنے والا نہیں بن جاتے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS