ملک میں انسانی حقوق کی جو صورت حال ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ آئے دن واقعات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔قومی انسانی حقوق کمیشن کی ویب سائٹ پر شکایات کی جو جانکاریاں دستیاب ہیں، وہ بھی بہت کچھ کہتی ہیں۔وہ شکایات ایسی ہوتی ہیں، جودرج کرائی جاتی ہیں یا جن کا نوٹس خودکمیشن لیتا ہے۔ورنہ اصلی تصویر کچھ اورہوتی ہیں۔ایسے بہت سے واقعات ہوتے ہیں، جن کی جانکاری کمیشن تک کسی وجہ سے نہیں پہنچ پاتی اوروہ اس کے ریکارڈ میں نہیں آپاتے۔بہرحال اگر کمیشن کے ریکارڈ یاویب سائٹ ہی کو پیمانہ بنایا جائے تونیوز ایجنسی پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق اسے یومیہ اوسطاً 228شکایات موصول ہورہی ہیں اور اس کے سامنے 20,806 معاملے زیر التوا ہیں۔وہ بھی کافی سنگین نوعیت کے ہیں۔ ویب سائٹ کے مطابق زیرالتوامعاملوں میں سے 344پولیس تحویل میں اموات،3407 عدالتی تحویل میں اموات اور 365 پولیس انکائونٹر میں اموات سے متعلق ہیں۔زیرحراست اموات تو واقعی کافی تشویشناک صورت حال ہے۔جب پولیس یا عدالتی تحویل میں لوگ محفوظ نہیں رہیں گے تو کہاں رہیں گے؟اسی طرح انکائونٹر بھی مستقل ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔پولیس اسے جائز ٹھہراتی رہتی ہے اور متاثرین سوالات اٹھاکر فرضی بتاتے رہتے ہیں۔آخرمیں معاملہ کمیشن یا کورٹ میں پہنچتاہے۔بہرحال حالات صحیح نہیں ہیں، کافی خراب ہیں اوراس بات کی گواہی کمیشن کا ریکارڈ دیتا ہے،جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ مستقبل میں حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔جس سے ملک کی بدنامی ہوسکتی ہے اورلوگوں کو پریشانی۔
قومی انسانی حقوق کمیشن 12اکتوبر 1993کوتشکیل دیا گیا تھا۔ تب سے اس کی قانونی کارروائی کے باوجود انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی شکایات میں اضافہ ہی ہوا ہے، کمی نہیں آئی ہے۔اگر صرف گزشتہ 5برسوں کی بات کریں تو 4,16,232شکایات کمیشن کو موصول ہوئی ہیں، جومعمولی بات نہیں ہے۔ہرسال شکایات بڑھتی جارہی ہیں۔ رواں مالی سال 2021-22میں اب تک 53,191 اورگزشتہ ماہ ستمبر میں 10,627 شکایات موصول ہوئیں۔چاہتے ہوئے بھی کمیشن شکایات میں کمی نہیں لاسکتا۔کیونکہ اس کا کام شکایات ملنے کے بعد ان کو درج کرنا یا علم میں آنے کے بعد ان کا نوٹس لینا، جانچ کرنا،متاثرین کو معاوضہ دینے کی سفارش کرنا اورقصوروار پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمہ جاتی قانونی کارروائی کے لیے اقدامات کرنا ہوتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کمیشن کی تشکیل کے بعد حالات بہتر ہوتے لیکن اس کے برعکس صورت حال ہے، بالکل اسی طرح جیسے قانون سازی کی جاتی ہے تاکہ جرائم پر قابوپایاجاسکے لیکن تجربہ،حالات اورواقعات بتاتے ہیں کہ جتنے قوانین بنائے جاتے ہیں، جرائم کی شرح اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ لوگوں کے اندر یاتو قانون کا خوف نہیں پیدا ہوتا یا کسی بھی قصوروار کے خلاف قانونی کارروائی دوسرے کے لیے عبرت نہیں بن پاتی ہے۔اسی لیے کوئی بھی جرم کرنے والاقانون اورقانونی کارروائی سے بے پروا ہوتا ہے۔
انسانی حقوق بہت نازک ہوتے ہیں، ذراسی لاپروائی میں بڑے بڑے واقعات رونما ہوجاتے ہیں اوراگر قصداً حقوق کی پامالی کی جارہی ہے تو یہ بہت ہی خطرناک ہے۔کسی بھی حال میں اورکسی کے ذریعہ انسانی حقوق کی پامالی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اوراگر یہ خلاف ورزی قانون کے رکھوالوں کے ذریعہ ہو تب تو کافی تشویش کی بات اور لمحۂ فکریہ ہے، کم از کم اس پر روک لگانے کیلئے سرکار کو آگے آنا چاہیے۔صرف انسانی حقوق کمیشن کے بھروسے نہیں چھوڑناچاہیے بلکہ سرکار کو خود نوٹس لینا چاہیے کہ آخر اس طرح کے حالات کیوں ہیں؟بہتری کیوں نہیں آرہی ہے؟صرف رپورٹ تیار کرنے، سال میں پیش کردینے یا شکایات کے نمٹارے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔اس کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔جو سب کے لیے عبرت بنیں۔
[email protected]
انسانی حقوق کی پامالی کا حال
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS