شنگھائی تعاون تنظیم کا ’کثیر جہتی عالمی نظام‘ کا خواب!

0

صبیح احمد

ازبکستان کی راجدھانی سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس میں ازبکستان، چین اور روس نے امریکی عالمی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک فریم ورک بنانے کی حکمت عملی پر غور کیا ہے۔ سربراہ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں اس خواب کو ’کثیر جہتی عالمی نظام‘ (ملٹی لیٹرل ورلڈ آرڈر) کا نام دیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں ایس سی او کے اراکین اور اتحادیوں پر زور دیا گیا کہ وہ سیاست، معیشت، قومی سلامتی اور ثقافت کے شعبوں میں مزید قریبی تعاون کریں۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’ ایس سی او کے 8 رکن ممالک بین الاقوامی قانون کے دنیا بھر میں تسلیم شدہ اصولوں پر مبنی ایک زیادہ نمائندہ، جمہوری، منصفانہ اور کثیرالجہتی عالمی نظام کے قیام کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔‘
اس اجلاس کے دوران سب کی نظریں جن پنگ اور پوتن کے درمیان ہونے والی بات چیت پر تھیں۔ دونوں ممالک نے خود کو ’ہنگامہ خیز دنیا‘ میں استحکام لانے کے لیے ایک بڑی طاقت قرار دیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر ژی جن پنگ نے ’رنگین انقلاب‘ کے ذریعہ ملکوں میں غیر ملکی افواج کی مداخلت کو روکنے کے لیے باہمی تعاون کی ضرورت کا اظہار کیا۔ ’رنگین انقلاب‘ سے عام طور پر مراد سابق سوویت جمہوریہ میں نام نہاد مغربی ممالک کی مدد سے اقتدار کو بدلنے کی سرگرمیاں ہیں۔ روس اور چین کی رائے میں ایشیا کے عروج اور یوکرین میں جنگ کی وجہ سے دنیا ابھی ایک دوراہے پر پہنچ گئی ہے۔ ایسے میں وہ ایس سی او کو اپنا بین الاقوامی اثر و رسوخ بڑھانے کا ایک آلہ سمجھ رہے ہیں لیکن اس تنظیم میں شامل ممالک کے مختلف مفادات کی وجہ سے یہ واضح نہیں ہے کہ ایس سی او ان دونوں کے مقاصد کو پورا کر پائے گی۔ یوکرین-روس جنگ کے بعد ہی اس گروپ میں اختلافات کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ چین اور روس ایس سی او سربراہ اجلاس کو کثیرجہتی ورلڈ آرڈر بنانے کا پلیٹ فارم بنا سکتے تھے لیکن روس کے یوکرین پر حملے نے گروپ کے اندر اختلافات پیدا کر دیے ہیں۔ اس جنگ نے سابق سوویت جمہوریہ اور وسطی ایشیائی ممالک میں خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ روس ان کی سرزمین پر بھی قبضہ کر سکتا ہے۔ خاص طور پر قزاخستان نے روس کی مرضی کے مطابق چلنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس نے یوکرین کو انسانی امداد بھی بھیجی ہے۔ چین کی جانب سے روس کی مذمت نہ کیے جانے سے بھی وسطی ایشیائی ممالک میں چین کے تئیں بے چینی بڑھ گئی ہے۔
روس-یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب دونوں رہنما ایک دوسرے سے ملے لیکن جس انداز میں یہ ملاقات ہوئی اور اس دوران جو کچھ باتیں ہوئیں وہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کسی نہ کسی طرح کے کھینچاؤ کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ یوکرین کی جنگ سے عین قبل روسی صدر پوتن سرمائی اولمپکس میں شرکت کے لیے چین پہنچے تھے جہاں دونوں ممالک نے اعلان کیا تھا کہ ان کی دوستی کی کوئی حد نہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں اسے بہت سنجیدگی سے لیا گیا تھا۔ اس بیان کے چند روز بعد روس اور یوکرین کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس نے روس کے لیے سنگین اقتصادی اور سفارتی چیلنجز پیدا کر دیے۔ بہرحال اب ایک مشکل جنگ اور مغرب کی جانب سے سخت پابندیوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کی کچھ حدیں ضرور نظر آ نے لگی ہیں۔ اس طرح کا بیان سمرقند میں پوتن اور جن پنگ کی ملاقات کے وقت دوبارہ سامنے نہیں آیا۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے چین کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں کیونکہ اسے روس کے ساتھ اپنی نظریاتی مصروفیات کو ایک ایسے وقت میں متوازن کرنا ہے جب پوتن کی جارحیت چینی سفارت کاری، علاقائی سالمیت اور عدم مداخلت کے کلیدی اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس ملاقات میں جن پنگ کی جانب سے یوکرین جنگ کا ذکر نہ کرنے کو بھی بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ پوتن کو بھی وہ سب کچھ نہیں ملا جس کی روس کو ضرورت تھی۔ مثال کے طور پر یوکرین میں گزشتہ کئی مہینوں سے سخت اقتصادی پابندیوں اور بدلتے ہوئے حالات کا سامنا کرنے والے پوتن برآمدات میں اضافہ کر کے چین سے مالی مدد کے خواہاں تھے۔ بہرحال جن پنگ نہیں چاہتے کہ پوتن اس جنگ میں ہاریں کیونکہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس چند ہفتے ہی دور ہے۔ اس میں جن پنگ تیسری بار چین کی اعلیٰ ترین کرسی حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ ایسے وقت میں وہ خود کو ناکامی کے قریب نہیں پانا چاہیں گے کیونکہ جن پنگ کو چین میں پہلے ہی بہت سے اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہیں پہلے ہی چین میں اقتصادی محاذ سے لے کر زیرو کووڈ کی پالیسی پر تنقید کا سامنا ہے۔ سخت کووڈ لاک ڈاؤن کی وجہ سے صنعتوں اور صارفین پر شدید اثر پڑا ہے۔ چین کو یوکرین جنگ کے باعث عالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات پر بھی تشویش ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم رکن ہونے کے ناطے چین اور روس کے تعلقات میں اس اتار چڑھائو سے ہندوستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بالخصوص خطہ میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ اور اس کی جارحانہ پالیسی کے سبب ہندوستان کو اضافی محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ محدود طور پر ہی صحیح لیکن ہندوستان اور چین کے درمیان حال ہی میں فوجی ٹکرائو بھی ہوچکا ہے۔ موجودہ صورتحال میں روس کے ساتھ ہندوستان کی دیرینہ دوستی اور تزویراتی رشتے کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ گزشتہ 5-6 سالوں میں ہندوستان کو روسی ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان اور ویتنام کو روسی ہتھیار ملنے کی وجہ سے بھی چین کی بے چینی بڑھی ہے۔ بدلتے ہوئے سیکورٹی نظام میں چین روس پر ہندوستان اور ویتنام کو ہتھیار دینے کے معاملے میں دباؤ ڈال سکتا ہے۔ حالانکہ فی الحال چین اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ روس کو ہندوستان کو اسلحہ دینے سے روک سکے لیکن مستقبل کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ گزشتہ چند سالوں میں وسطی ایشیا میں چین کی موجودگی بھی تیزی سے بڑھی ہے۔ وسطی ایشیا کی مارکیٹ میں چینی مارکیٹ پھیل رہی ہے اور یہ روس کے لیے بھی تشویشناک ہے۔
بہرحال یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ روس چین کے لیے ہندوستان کو نہیں چھوڑ سکتا اور نہ ہی ہندوستان مغرب کے لیے روس کو چھوڑ سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ حالیہ برسوں میں روس اور چین کے تعلقات گہرے ہوئے ہیں لیکن دونوں کی ضروریات بھی آپس میں ٹکراتی ہیں۔ گلوان وادی میں چین کے ساتھ ہندوستان کی جھڑپ کے دوران بھی روس نے ہتھیاروں کی سپلائی بند نہیں کی۔ روس نے ہندوستان کو کبھی نہیں چھوڑا اور لگتا ہے کہ آگے بھی نہیں چھوڑے گا۔ اس لیے موجودہ صورتحال سے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ ایس سی او کے3کلیدی ارکان چین، روس اور ہندوستان کے مفادات میں موجودہ عدم یکسانیت جب تک ختم نہیں ہوگی، اس وقت تک ’کثیر جہتی عالمی نظام‘ کے خواب کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب خطہ کی دو اہم طاقتوں ہندوستان اور چین کے اسٹرٹیجک رشتے انتہائی نازک موڑ پر ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS