اسمبلی انتخابات پر اومیکرون کا سایہ

0

شاہد زبیری

ابھی کورونا کے پرانے ویرینٹ سے عوام کو نجات نہیں ملی تھی کہ نئے ویرینٹ اومیکرون نے پوری دنیا کے ساتھ ہمارے ملک میں بھی خطرے کا الارم بجا دیا ہے گو کہ جنوبی افریقہ میں اس کا زور کم بتایا جا رہا ہے جہاں سے یہ نیا ویرینٹ دنیا بھر میں پھیلا ہے مگر برطانیہ اور امریکہ سمیت بیشتر ممالک اس کی زد میں آچکے ہیں۔ ہمارے ملک میں روزانہ اومیکرون کے کیسوں میں اضا فہ ہو رہا ہے اور ہمارے 15صوبوں میں یہ دستک دے چکا ہے۔ اسی کے ساتھ آئی آئی ٹی کے ماہرین نے ماہ فروری میں کورو نا کی تیسری لہر کے خدشے کا بھی اظہار کیا ہے۔ اس تناظر میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو کی طرف سے گزشتہ دنوں قومی الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نر یندر مودی سے انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست پر اگر غور کیا جا ئے تو بیجا نہ ہو گا۔ قومی الیکشن کمیشن نے اس بابت عدا لت سے ایک ہفتے کا وقت مانگا ہے جس کے بعد ہی وہ یہ فیصلہ کر پائے گا کہ موجودہ حالات میں انتخاب ملتوی کیے جا ئیں کہ نہیں لیکن عدالت عالیہ کی اس پہل نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے اور میڈیا میں بھی یہ ایشو بحث کا مر کز بنا ہوا ہے اور اس دوران عدالت عالیہ کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں اور اس پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عدالتیں درخواست نہیں کرتیں، فیصلہ اور حکم سنا تی ہیں اور یہ کہ قومی الیکشن کمیشن ایک آئینی اور خود مختار ادارہ ہے جس کو کسی عدالت کے ذریعہ ہدایات جا ری نہیں کی جا سکتیں اور یہ وزیر اعظم کے دائرۂ اختیار سے با ہر ہے کہ انتخابات کب کرا ئے جائیں اور کب نہیں، پھر آخر عدالت کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وزیراعظم سے درخواست کرنی پڑی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جسٹس شیکھر یادو نے یہ درخواست اس وقت کی ہے جب وہ گینگسٹرایکٹ کے تحت گرفتار ملزم کی ضمانت کی عرضی کی سماعت کر رہے تھے۔ اس وقت عدالت وکلا اور لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہو ئی تھی اور کووِڈ-19 کے پروٹو کول کا بھی دھیان نہیں رکھا گیا تھا۔ عدالت نے قومی الیکشن کمیشن اور وزیراعظم کے ساتھ رجسٹرار جنرل الہٰ آباد ہائی کورٹ سے بھی درخواست کی کہ وہ اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے قانون بنا ئے ۔
لوگ بھولے نہیں ہیں کہ ملک میں کورونا کی لہر آنے کے باوجود قومی الیکشن کمیشن نے بہار اور بنگال میں صوبائی انتخابات کرا ئے تھے،یو پی میں پنچایت انتخابات ہوئے۔ صو بائی انتخا بات میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ سمیت مرکزی وزرا کی کے علاوہ یو پی کے وزیراعلیٰ بھی بنگال اور بہار کی بڑی بڑی ریلیوں کو خطاب کر رہے تھے، نتیجہ سامنے تھا۔ ان انتخابات کے بعد کورونا نے جو قیامت ڈھائی تھی، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہر ہوشمند کو معلوم ہے کہ موت کس طرح انسانی بستیوں پر جھپٹا مار ر ہی تھی اور ہمارا ہیلتھ کا نظام تہہ و بالا ہو گیا تھا۔ اگر اس تباہی کو دھیان میں رکھیں تو الٰہ آباد ہائی کورٹ کی اس پہل کا خیر مقدم کیا جا نا چاہیے۔ کورٹ نے جہاں انتخابات ملتوی کیے جانے کی بات کہی ہے، یہ بھی کہا ہے کہ ریلیوں میں بھیڑ اکٹھا کیے جا نے پر روک لگا ئی جائے۔سیاسی پارٹیاں انتخا بی تشہیر ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے کریں۔ ہرچند کہ ابھی قومی الیکشن کمیشن نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اور عدالت کی درخواست کے پیش نظر یو پی کے حالات کا جا ئزہ لینے کے بعد فیصلہ سنائے گا لیکن اس سے پہلے ہی کھچڑی پکنے لگی ہے اور انتخابات کرا ئے جائیں گے کہ نہیں، یہ سوال زیر بحث ہے۔ قومی الیکشن کمیشن کی طرف سے عدالت کی درخواست پر صاد کرنے سے سرکار مخالف حلقے اس کو نورا کشتی بتا رہے ہیں اور سوال اٹھا رہے ہیں کہ عدالت کے سامنے یو پی کے انتخا بات تھے ہی نہیں، ایک ملزم کی ضمانت کا مسئلہ تھا، آخر کیوں عدالت نے اس بحث کو چھیڑ دیا۔ بی جے مخالف حلقے اس کو دوسرے معنی پہنا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں بی جے پی کو شکست صاف نظر آرہی ہے، اس لیے اس نے یہ دائو کھیلا کہ الیکشن ملتوی کرا دیے جا ئیں تاکہ اس کو مزید تیا ری کا موقع مل جا ئے۔ کہا تو یہاں تک جارہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو سائڈ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے انتخابات نہیں چاہتے۔ مئی میں یو گی حکومت کی مدت پوری ہو نے والی ہے۔ اس کے بعد صدر راج میں انتخابات کرا ئے جانے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے تاکہ یو گی جی کے چہرے کو دور رکھا جا سکے اور یوگی جی کے چہرے میں لوگوں کو مودی جی کا چہرہ نظر نہ آئے۔ چونکہ یہ مودی جی کے حق میں نہیں جاتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ عدالت نے صرف یو پی کے تناظر میں انتخابات ملتوی کیے جانے کی بات کہی ہے لیکن اومیکرون اور کورونا کی تیسری لہر صرف یو پی تک تو محدود نہیں۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق ملک کے 15 صو بوں میں کورونا کے نئے ویرینٹ نے پائوں پسار لیے ہیں، اس لیے انتخابات صرف یو پی کے کیوں ملتوی کیے جا ئیں، پڑوسی صوبے اترا کھنڈ، پنجاب، ہماچل، گوا اور منی پور کے بھی انتخابات ملتوی کیے جا ئیں گے کیا بی جے پی اس کے لیے بھی تیار ہوگی، یہ سب سوال پبلک ڈومن میں ہیں اور میڈیا میں زیر بحث ہیں۔ اس کو بحث برا ئے بحث بھی کہا جا سکتا ہے لیکن اس سے انکار ممکن ہے کہ یو پی انتخابات کو لے کر وزیراعظم کی ریلیاں ہو ں یا وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ یا پھر اپوزیشن جماعتوں کی ریلیاں، ان میں جس طرح بھیڑ دکھا ئی دے رہی ہے اور بھیڑ ہی نہیں، اسٹیج پر بھی لیڈروں کا جو جمگھٹا دکھا ئی پڑتا ہے، اس سے تو اومیکرون کا خطرہ اور بڑھ جا تا ہے۔ اس پر یہ کہ کووڈ-19 کے پروٹو کول کا خیال نہ حکمراں جماعت کے لیڈر رکھ رہے ہیں اور نہ حزب اختلاف کی ریلیوں میں اس کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ اگر یہ کہا جا ئے کہ ان انتخابی ریلیوں میں کووڈ-19 پروٹو کول کی دھجیاں اڑانے میں حزب اختلاف ہی نہیں، حکمراں جماعت بھی کم نہیں ہے تو غلط نہ ہو گا۔ عدالت کی درخواست کے بعد یہ ضرور ہوا کہ یو پی میں رات کا کرفیولگا دیا گیا ہے اور ضلع انتظامیہ نے ماسک کی پابندی پر بھی سختی شروع کر دی ہے۔ شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں 200 افراد سے زائد پر پابندی لگا دی گئی ہے لیکن ابھی ایسی کوئی پابندی انتخابی ریلیوں پر لگا ئے جانے کی اطلاعات نہیں ہیں۔ حال ہی میں یو پی میں بی جے پی کی جن وشواس یاترا میں وزیروں کی فوج کے ساتھ جو بھیڑ کا عالم تھا، وہ سب نے دیکھا ہے۔ کانگریس نے اسمبلی حلقہ وائزپرتگیہ اجلاس شروع کر دیے ہیں۔ یہ سب اس وقت کیا جا رہا ہے جب اومیکرون کا خطرہ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور آئی ٹی آئی کے ماہرین نے کورونا کی تیسری لہر کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ اس سب کے خلاف تو ابھی کوئی کارروائی نظر نہیں آتی۔ ہاں! ایک مرتبہ پھرپولیس نے ناحق عوام پر ڈنڈے برسانا شروع کر دیے ہیں اور کووڈ-19کے پرو ٹو کول کی خلاف ورزی پر کیس درج کرنے کی دھمکیا ں دے رہی ہے، شادی بیاہ کی تقریبات کے ساتھ یو پی میں کرسمس کی تقریبات کی رونق بھی ماند پڑ گئی اور نئے سال کے جشن کی خوشیاں بھی پھیکی نظر آرہی ہیں۔
حالات کا تقاضہ ہے کہ انتخا بات صرف یو پی میں ہی نہیں،دیگر چار ریاستوں میں بھی ملتوی کیے جائیں، اس لیے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں تنہا دہلی میں 96.7 فیصد کورونا متاثرین کے معاملے سامنے آئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ نئے سال کے آغاز پر ماہ جنوری میں ملک میں اومیکرون کے معاملے بڑھ سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی مہاماری کے خطرے کی آہٹ پھر سنائی دینے لگی ہے۔ لوگ دعائیں مانگ رہے ہیں کہ نیا سال بیتے سال کی طرح نہ آئے اور وہ سب کچھ نہ جھیلنا پڑے جسے سوچ کر بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔ نئے سال کے ساتھ ہی اب سب کی نظریں قومی الیکشن کمیشن پر لگی ہیں۔ وہ چند روز بعد کیا فیصلہ سناتا ہے، انتخابات کی تمام تیا ریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے کی حامی بھری تو نئے سال کے پہلے ماہ جنوری کی کسی بھی تاریخ کو الیکشن کمیشن انتخابات کا نوٹیفیکیشن جاری کر سکتا ہے اور ماہ فروری میں انتخا بات ممکن ہیں۔ 2017 میں پولنگ میں کئی ماہ لگا دیے گئے تھے اور ایک سے زائد مرحلوں میں پولنگ کا عمل مکمل ہوا تھا۔ پولنگ تو اب بھی ایک سے زائد مرحلوں میں ہو گی لیکن درمیانی وقفہ کم رکھا جائے تو پولنگ جلد مکمل ہو سکتی ہے اور جلد نتا ئج سامنے آسکتے ہیں۔ اغلب خیال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن یو پی سمیت 5 صوبوں میں ایک ساتھ پو لنگ کرائے اور نتائج کا اعلان بھی ایک ساتھ ہولیکن یہ تو طے ہے کہ بہار، بنگال کی طرح ان 5 صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی کورونا کے دیگر ویرینٹ کی طرح اومیکرون کے سائے میں کرا ئے جا ئیں گے جس کے خطرات سے انکار ممکن نہیں۔ بہار، بنگال کے صوبائی انتخا بات اور یو پی کے پنچایتی انتخابات کے بعد کورونا نے جو حشر بپا کیا تھا، وہ بھلا یا نہیں جا سکتا۔ ایسے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس کی درخواست کے پس پشت کیا عوامل رہے ہیں اور اس درخواست کی قانونی حیثیت کیا ہے، اس بحث میں پڑے بغیر اگر انتخابات کچھ وقت کے لیے ملتوی کر دیے جا ئیں تو اومیکرون کی بابت جن خدشات کا اظہار کیا جارہاہے، ان سے کسی حد تک بچا جا سکتا ہے۔ ٹی وی اور اخبارات کی مشتہری سے تو انتخا بات لڑے نہیں جا سکتے اور یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ عوام کی جان جب جوکھم میں رہے گی تو بہتر یہی ہو گا کہ اس جوکھم سے بچا جا ئے اور انسانی جان کو عزیز جا نا جا ئے۔ جان ہو گی تو جہان ہو گا ۔lrt
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS