تحفظ ناموس رسالت میں عصر حاضر_کے علماء کا کردار

0
امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جائے تو امت کو کیا کرنا چاہئے، امام مالک نے جواب دیا کہ امت کو اس کا بدلہ لینا چاہئے، اس پر سائل نے سوال کیا کہ اگر امت ایسا نہ کرے تو؟ جس پر امام مالک نے فرمایا کہ امت کو مر جانا چاہئے کہ کیونکہ نبی کی شان میں گستاخی کے بعد امت کوجینے کا کوئی حق نہیں۔
امام مالک کے تاریخی کلمات یہ بتاتے ہیں کہ شان رسالت میں کی گئی گستاخی ہرگز ناقابل معافی ہے،امام ابن العابدین شامی حنفی لکھتے ہیں ”تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ گستاخِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل واجب ہے اور امام مالک، امام ابولیث، امام احمدبن حنبل، امام اسحاق اور امام شافعی علیہم الرّحمہ حتیٰ کہ سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بھی موقف یہی ہے کہ اس کی توبہ قبول نہ کی جائے۔ (فتاویٰ شامی)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دینے سے عہد ٹوٹ جاتا ہے اور ایسے شخص کو قتل کر دینا چاہیے، ابن المنذر، الخطابی اور دیگر علماء نے امام شافعی سے اسی طرح نقل کیا ہے، امام شافعی اپنی کتاب”الام“ میں فرماتے ہیں ”جب حاکم وقت جزیہ کا عہد نامہ تحریرکرے تو مشروط کرتے ہوئے عہد نامے میں تحریر کیا جائے کہ اگر تم میں سے کو ئی شخص محمدصلی اللہ علیہ وسلم یا کتاب اللہ یا دین اسلام کا تذکرہ نازیبا الفاظ میں کرے گا تو اس سے اللہ تعالیٰ اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری اٹھ جائے گی، جو امان اس کو دی گئی تھی وہ ختم ہو جائے گی اور اس کا خون اور مال امیر المومنین کے لیے اس طرح مباح ہو جائے گا جس طرح حربی کافروں کے اموال اور خون مباح ہیں“۔ (الصارم المسلول اردو ترجمہ)
امام اہلسنت امام احمد رضا خا ن قادری رحمۃ اللہ علیہ الاشباہ والنظائر کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ”نشے کی حالت میں کسی مسلمان کے منہ سے کلمہئ کفر نکل گیاتو اسے کافر نہ کہیں گے اور نہ سزائے کفر دیں گے مگر نبی کریم کی شان میں گستاخی وہ کفر ہے کہ نشے کی بے ہوشی سے بھی صادر ہو تو اسے معافی نہ دیں گے“۔ (فتاویٰ رضویہ)
اس کے علاوہ اشرف علی تھانوی، انور شاہ کشمیری دیوبندی، حسین احمد مدنی دیوبندی وغیرہ علماء دیوبند کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ شان رسالت یا بارگاہ الوہیت میں گستاخی ناقابل معافی جرم ہے، یہاں اتنا اور واضح کردینا ضروری ہے کہ اس جرم کا مرتکب غیرمسلم ہو پھر کلمہ گو سبھی واجب القتل ہیں۔
گستاخ رسول کے تعلق سے یہ علماء عرب و عجم اور سبھی مسلک ومشرب کا موقف اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ناموس رسالت کی حفاظت ایمان کی بنیاد ہے جس کی حفاظت و صیانت ہردور میں عالم اسلام کے ہر فرد پر فرض عین ہے، اور اس فرض کی دائیگی میں کسی بھی طرح کی کوتاہی کا مطلب ہے دولت ایمان کی قوت سے محرومی، ناموس رسالت کی حفاظت کتنا اہم مسئلہ ہے اس کا اندازہ اس بات بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی میں سیکڑوں ایسے واقعات پیش آئے ہیں جہاں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بھی ناموس رسالت کی حفاظت کی ہے، البتہ سزا دینے کاطریق کار قانونی اعتبار سے ہے نہ کہ ہر فرد انفرادی طور پر سزا کا حکم صادر کرنے لگے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں عوام میں انارکی پھیل جائے گی جس کی اسلام میں ہرگز گنجائش نہیں ہے۔
جہاں تک سوال ہے کہ موجودہ دور کے علماء کرام کا ناموس رسالت میں کیا کردار ہے یا اس کے لئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں تو اس تعلق سے اگر ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو پوری ملت اسلامیہ کے غیرت کا جنازہ نکل چکا ہے برصغیر سمیت پوری دنیا میں آزادیئ اظہار رائے کے نام پر شان رسالت میں ہرزہ سرائی مسلسل جاری ہے لیکن چند ایک مذمتی بیان اور جزوقتی تجارتی بائیکاٹ کے علاوہ پورے عالم اسلام کے پاس کا کوئی مستقل حل نہیں ہے۔
گذشتہ کچھ برسوں کا جائزہ بتاتا ہے کہ ناموس رسالت کی خاطر سرگرم تنظیموں میں بر صغیر ہندوپاک میں ”لبیک یارسول اللہ“پاکستان اور رضا اکیڈمی ممبئی مہاراشٹر کا نام لیا جاسکتا ہے جو ناموس رسالت کی حفاظت میں قدرے آواز اٹھانے کا کام کرتی رہیں، مملکت خدا دادپاکستان میں اور بھی متعدد تنظیمیں ہیں جو ناموس رسالت کے تحفظ میں سرگرم ہیں جبکہبھارت کی مسلم آبادی اصولی زندگی سے ناآشنا ہوچکی ہیبھارتی مسلمانوں کواس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے دین اور ایمان پر کون حملہ آور ہورہا ہے، پی ایف آئی کے بعد اب رضا اکیڈمی پر بھی پابندی کے بادل منڈلانے لگے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ جلد ہی اس پر بھی پابندی عائد کردی جائے۔
رضا اکیڈمی کے علاوہ ناموس رسالت کے نام پر نومولود تحریک فروغ اسلام دہلی نے بھی اس مسئلے پر متعدد بار آواز اٹھانے کا کام کیاہے تحریک فروغ اسلام کے بانی مولانا قمر غنی عثمانی ابھی بھی جیل میں ہیں کئی سماعتوں کے بعد بھی انہیں ضمانت نہیں مل پارہی ہے تنظیم کے جنرل سیکریٹری مولانا عقیل فیضی نے بتایا کہ مولانا قمر غنی عثمانی کے علاوہ انہیں اور تحریک کے ایک دوسرے کارکن قاری ارشاد صاحب کو کو گرفتار کیا گیا تھا جنہیں دس دنوں کے بعد رہا کردیا گیا، اس کے علاوہ انفرادی طور پر ناموس رسالت کے متحرک رہے مولانا سلمان ازہری کا ذکر نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہ جائے گی حالانکہ میں ان کے دعوت مباہلہ والی بات سے اتفاق نہیں رکھتا ہوں لیکن پھر بھی اس بات کی تعریف تو کرنی پڑے گی کہ جب پوری ملت اسلامیہ ہند بزدلی کے قعرمذلت میں غوطہ زن تھی تب اس مرد مجاہد نے یتی نرسنگھا نند جیسے شاتم رسول کو للکارنے کا کام کیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے ناموس رسالت کے نام پرعالم اسلام بشمول ہند و پاک میں لاکھوں تنظیمیں اور تحریکیں پائی جاتی ہیں لیکن اس کے باجود شان رسالت میں گستاخیاں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی جارہی ہیں جو یہ بتاتا ہے ناموس رسالت کے نام پر ہماری تمام تر کیبیں غلط سمت میں جارہی ہیں اسی لئے ان تنظیموں کی ہزار کوششوں کے بعد بھی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
دراصل ناموس رسالت کی حفاظت تحریک یا تنظیم کی صورت میں ممکن ہی نہیں ہے تحریک یا تنظیم صرف پرپوزل یا ڈیمانڈ کرسکتی ہیں لیکن اس کا نفاذ حکومتیں کرتی ہیں اور حکومتیں سیاست کی مرہون منت ہوتی ہیں، المیہ یہ ہے پوری امت مسلمہ اسلام کے آفاقی نظام سیاست کو بالائے طاق رکھ کر، غیروں کی تابعداری میں نجات کی متلاشی ہے جو کسی صورت بھی ممکن نہیں،موجودہ دور میں علماء کرام یا دانشوران قوم سبھی کے ناموس رسالت کے تعلق سے کارکردگی ایسے ہے جیسے مارے گھٹنہ پھوٹے سر۔
جن احتجاج اور مظاہروں سے ناموس رسالت کے تحفظ کا خواب دیکھا جارہا ہے وہ خود فریبی زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، احتجاج اور مظاہروں کی افادیت سے انکار بھی نہیں ہے لیکن صرف احتجاج اور مظاہرے قیام انصاف کے لئے کافی نہیں ہوتے، قیام امن اسی وقت ممکن ہے جب حکومت میں آپ کی حصے داری ہوگی اورخود کواقلیت کہہ کر مظلوم ثابت کرنے سے حکومت نہیں ملتی حکومت حاصل کرنے کے لئے اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی نبی کریم کے مکی دور زندگی کو مشعل راہ بنا کر حصول اقتدار کے لئے جد وجہد کرنا پڑتاہے اور اگر ایک بار آپ کی حکومت میں ساجھیداری یقینی ہوگئی تو پھر شان رسالت میں گستاخیوں کا دور خود بخود بند ہوجائے گا۔
علماء کرام سیرت بنوی کے مکی دور کے واقعات بیان کر کے مسلمانوں کو صبر و تحمل کی تلقین کرنے کے بجائے حصول اقتدار کی خاطر ملک کی سرگرم سیاست میں حصہ لینے کی تلقین کریں عوام کو بتائیں کہ مکی دور رسالت جہاں صبر تحمل کا درس دیتا ہے وہیں اسی مکی دور میں ہی مدنی سیاسی حکمت عملی کا راز بھی پنہاں ہے جس نے وقت کے دو سپر پاور قیصر و کسریٰ کو دھول چٹا کر نظام عالم اپنے ہاتھوں میں لیااور اس عالم ہستی کو امن و آشتی کا گہوارہ بنایا، سیاسی حکمت عملی کے بر خلاف حالیہ علماء کرام کی جماعت سیاست اور جہاں بانی کی بات کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ سیاست کے بغیر حکومت اور حکومت کے بغیر ناموس رسالت کی حفاظت نہیں کی جاسکتی، بہرحال ناموس رسالت کا تحفظ ہر حال میں امت مسلمہ پر فرض ہے اور اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مودوہ علماء کرام اور مسلم ماہرین سیاست کو مثبت لائحہ عمل ترتیب دے کر شان رسالت میں کی جانے والی ہرزہ سرائیوں کا سد باب کرنا ہی ہوگا، کیونکہ ایمان کی سلامتی عصمت رسول پر منحصر ہے اور ناموس رسالت کے عدم تحفظ کی صورت میں دین اور دنیا دونوں ہی خانہ خرابی کا شکار ہیں اس لئے ہوش کے ناخن لیں اور درست سمت میں تحفظ ناموس رسالت کے اقدامات عمل میں لائے جائیں، یہی ایمان کا تقاضہ اور قیام امن کی روح ہے۔
🖊
شفیق فیضی
DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of
information contained.
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS