دنیا کے کسی بھی ملک میں جہاں فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے وہاں سے اس کو بے دخل کرنا بہت مشکل کام ہے۔ براعظم افریقہ ہو یا مغربی ایشیا کے ممالک یا کسی بھی خطے کا ملک ہر جگہ کا یہی ایک اصول ہے۔ براعظم افریقہ اس صورت حال سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ پچھلے دنوں ہم نے اسی کالم میں وادی نیل کے ایک اہم ملک سوڈان کے بارے میں بتایا تھا جہاں فوجی حکمرانوں نے سیاسی اداروںکے ساتھ ساتھ اقتصادی اداروںپر بھی قبضہ کرلیا تھا۔
پچھلے ہفتہ فوجی حکمرانوں نے اقتصادی اداروں پر قبضہ کرکے وسائل پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی۔ سوڈان کی فوج نے ملک کے اقتصادی وسائل پر قبضہ مکمل کرلیا تھا۔ لیکن دو روز قبل ایک نئی صورت حال سامنے آئی جوکہ جمہوریت پسندوں کے لئے راحت کی بات تھی۔ سوڈان کے فوجی حکمرانوں نے جمہوری نظام کے قیام کے لئے جدوجہد کرنے والے اداروں اور تنظیموںکے ساتھ سمجھوتہ کرکے جمہوری نظام اور آئین بنانے کے لئے کمیٹی کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ اس سمجھوتے کے تحت ملک میں غیرفوجی سیاست دانوں کی قیادت والے ایک ٹرانسزشنل سرکار (Transitional Government) کے قیام کا راستہ صاف ہوا ہے جویہ بتائے گی کہ سوڈان میں انتخابات کب اورکس طرح ہوںگے۔ یہ معاہدہ سوڈان کے دو اہم فوجی سربراہوں عبدالفتح برہان اور محمد ہمدان ڈگالو اور جمہوریت نواز گروپ فورسیز فورم فریڈم اینڈ چینج (ایف ایف سی)کے درمیان ہوا ہے۔ لیکن کئی حلقوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ یہ سمجھوتہ ملک میں جمہوری نظام کے قیام میں کس حد تک معاون ہوگا کیونکہ فوجی حکمراں مختلف معاہدے اور سمجھوتے کرکے یہ تاثر تو دیتے ہیں کہ وہ جمہوری نظام میں حکومت کا قیام چاہتے ہیں اور تمام اختیارات اس کے سپرد کرنا چاہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے تمام سمجھوتے اور قراردادیں اس عمل کو موخر کرنے میں زیادہ معاون ہوتے ہیں اگر موجودہ فوجی حکمراں جمہوریت کے قیام میں ذرا بھی سنجیدہ ہوتے تو وہ پچھلے دس دن قبل تمام اقتصادی اداروں کو اپنی تحویل میں لینے کا قدم نہیں اٹھاتے۔
بہرکیف آج سوڈان میں قحط سالی کے ساتھ ساتھ کسادبازاری کا وہ دور چل رہا ہے جس سے نکلنا فی الحال مشکل نظرآرہا ہے۔ 2021کے اواخر میں موجودہ فوجی حکمراں برہان نے شہری حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرکے تمام امور پر قبضہ کرلیا تھا اس کے بعد پوری دنیا سے سوڈان میں پہنچنے والی اقتصادی اور غذائی امداد موقوف ہوگئی۔ اس کے بعد پچھلے دنوں سوڈان میں سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ سوڈان میں کووڈ 19کے بعد دنیا کے دیگرممالک کی طرح اقتصادی بحران ہے۔ پچھلے دنوں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سوڈان سمیت افریقہ کے کئی ملکوںکو ملنے والی غذائی اجناس کی سپلائی میں زبردست کمی واقع ہوگئی تھی۔ یہ تمام مسائل اور اندرونی سیاسی خلفشار نے صورت حال کواس قدر پیچیدہ بنا دیا ہے کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ کئی علاقو ں میں جمہوریت نواز تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور رضاکاروں، تنظیموں کے مظاہروںکو دبانے کے لئے فوج نے بڑی بے رحمی اور سفاکی کا مظاہرہ کیا مگر اس کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ عالمی سطح پر حکمراں جنرل عبدالفتح برہان کی اندرون ملک اور بیرون ملک گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ انڈونیشیا میں ہونے والی جی۔20 گروپ کی سربراہ کانفرنس میں جنرل برہان بڑے طمطراق کے ساتھ شریک ہوئے تھے اور کئی خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب نے ان پر بڑی نوازشیں کی تھیں۔ ایک طرف مغربی ممالک کا بلاک ان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ سیاسی اختیارات کو جمہوری طورپر منتخب حکومت کو منتقل کریں تو دوسری طرف کئی ممالک برہان کو حمایت دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نیا سمجھوتہ کتنے دنوں میں اپنے مقاصد کو حاصل کرلے گا۔ کئی ناقدوںکا کہنا ہے کہ برہان نے سیاسی پارٹیوں رضاکار تنظیموںاور پیشہ ورانہ تنظیموں کو کمزور کرنے کے لئے ایسے حربے اور ہتھکنڈے اختیار کئے ہیں جو ان مذکورہ بالا تمام طبقات میں خلفشار پیدا کرنے اور اقتدار کو غیرفوجی انتظامیہ کو منتقل کرنے کے عمل کو موخر کرنے میں اہم ثابت ہوںگے، حالیہ سمجھوتہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
٭٭٭
سوڈان میںجمہوریت کے قیام کی راہ مسدود
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS