نتائج سے طاقتور ہوئے علاقائی لیڈر

0

آرتی آر جیرتھ

اسمبلی انتخابات کے نتائج کو اگر دیکھیں تو خاص طور پر ممتابنرجی کی جیت چونکانے والی ہے۔ انہیں کیا خوب مینڈیٹ ملا ہے، جب اپوزیشن کے قدآور لیڈر تقریباً روز ہی ممتابنرجی کو نشانہ بنانے میں لگے تھے۔ تمام کوششوں کے باوجود ممتابنرجی کی سیٹوں کی تعداد کم ہونے کے بجائے گزشتہ مرتبہ کے مقابلہ میں بڑھ گئی ہے۔ تمام اپوزیشن لیڈران میں اگر آپ دیکھتے ہیں تو ممتابنرجی سب سے بڑی بی جے پی مخالف اور وزیراعظم کی سب سے واضح تنقید کرنے والی رہی ہیں۔ ممتابنرجی نے پوری انتخابی مہم نریندر مودی کے خلاف چلائی ہے۔ مہم کے دوران ہی انہوں نے سبھی اپوزیشن لیڈران کو چٹھی لکھی تھی کہ ہمیں جمہوریت کو بچانے کے لیے ایک نیشنل فرنٹ بنانا چاہیے۔ آنے والے وقت میں ممتابنرجی کا یہ ایک بڑا ایجنڈا ہوگا کہ مرکزی حکومت کی مخالفت کے لیے علاقائی پارٹیوں کا ایک فرنٹ بنائیں۔ یہ فرنٹ الیکشن کے لیے تو نہیں ہوگا، لیکن جس طرح سے مرکزی حکومت ساری طاقتوں کا سینٹرلائزیشن کررہی ہے، ریاستوں کو نظرانداز کیے جانے کا احساس ہورہا ہے، ان ایشوز پر ممتابنرجی باقی پارٹیوں کو لے کر نریندرمودی کے خلاف خوب لڑیں گی اور اس میں انہیں تمل ناڈو کے ڈی ایم کے لیڈر ایم کے اسٹالن اور کیرالہ کے لیڈر پی وجیین کا ساتھ ملے گا۔ یہ دونوں لیڈر بھی اپنی اپنی ریاستوں میں بہت زبردست مینڈیٹ سے جیت کر آئے ہیں۔ یہ بھی وفاقیت پر بہت مضبوطی سے اعتماد کرنے والے لیڈر ہیں۔

لوگوں کی زیادہ توجہ بنگال پر لگی رہے گی۔ جہاں ممتابنرجی کے سامنے تشدد کا معاملہ ہوگا اور ’کم منی‘ کا بھی۔ دونوں کمیوں کو کسی طرح سے سنبھالنا پڑے گا۔ بی جے پی اب بڑی اپوزیشن ہے، تین سے 75سیٹ پر آگئی ہے، لیفٹ اور کانگریس صاف ہے۔ ممتابنرجی کے سامنے چیلنج اب پہلے سے بڑا ہے۔

کل ملا کر کورونا نے جس طرح سے نریندر مودی کی شبیہ کو دھکا پہنچایا ہے اور جس طرح سے ان کی ملک اور غیرملک کی پریس میں تنقید ہورہی ہے۔ زیادہ تر لوگ کہہ رہے ہیں یہ سب پورا مرکزی حکومت کا خراب مینجمنٹ تھا، جس کے سبب لوگ جان گنوا رہے ہیں۔ اگر حکومت تھوڑی الرٹ رہتی اور ماہرین کی بات سن لیتی تو اتنا برا حال نہ ہوتا۔ اب لڑائی یہیں سے شروع ہوگی۔ آگے آنے والے مہینوں میں یہ بڑھے گی۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ کورونا کے وقت مرکزی حکومت نے ویکسین، آکسیجن، لاک ڈاؤن جیسے فیصلوں کو پوری طرح سے سینٹرلائزڈ کردیا تھا۔ مکمل کورونا مینجمنٹ دہلی سے چل رہا تھا۔ آج زیادہ تر اپوزیشن پارٹیوں کے ذریعہ حکومت والی ریاستیں یہی تو بول رہی ہیں کہ ہمیں ویکسین نہیں مل رہی، دواؤں کی کمی ہے، آکسیجن کی کمی ہے۔ مہاراشٹر تو ایک ایسی ریاست ہے جو پہلے سے ہی مرکزی حکومت سے لڑرہی ہے۔ اگر آپ دیکھیں تو مجھے لگتا ہے کہ علاقائی لیڈروں کا ایک گروپ بنے گا، جو چیلنج دے گا۔ ایشوز کی بنیاد پر چیلنج دیا جائے گا اور آج سب سے بڑا ایشو کورونا وبا ہے۔
دوسری جانب، کانگریس کا تو صفایا ہوگیا ہے، کوئی بھی کانگریس کی طرف دیکھ نہیں رہا ہے۔ کانگریس کی اپنی سیاست ہے، اپنی سوچ ہے، جو علاقائی پارٹیوں سے مختلف ہے۔ علاقائی پارٹیوں کے لیے راستہ اب آسان ہوگیا ہے، کانگریس ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ دیگر وزرائے اعلیٰ جیسے اڈیشہ میں نوین پٹنائک، آندھراپردیش میں جگن ریڈی اور تلنگانہ میں چندرشیکھر راؤ اب تک تقریباً خاموش تھے، لیکن اب کورونا کی وجہ سے کچھ کچھ ان کی آواز بھی نکل رہی ہے۔ یہ لوگ بھی ممتا کے ساتھ منسلک ہونے کی کوشش کریں گے۔
اب دیکھنا ہے کہ اترپردیش میں کیا ہوتا ہے۔ 6ماہ میں اترپردیش میں اسمبلی الیکشن کی تیاری شروع ہوجائے گی۔ یہاں اپوزیشن پارٹیوں کے پاس لاء اینڈ آرڈر ایک بڑا ایشو ہے۔ ددوسرا کورونا جس طرح پھیل رہا ہے، لوگ جس طرح جان گنوا رہے ہیں، یہ بڑا ایشو ہے۔ تیسرا ایشو ہے زرعی قوانین کے خلاف چل رہی تحریک۔ اترپردیش میں مرکزی حکومت کے خلاف اپوزیشن اگر متحد ہوگیا تو اس کی آواز بہت بڑھ جائے گی۔ اہم بات یہی ہوگی کہ علاقائی پارٹیاں سینٹرلائزیشن کی مخالفت کریں گی۔ کسی بھی طرح کی منمانی کے خلاف آواز اٹھائیں گی۔ مطالبہ ہوگا کہ مرکزی حکومت کو وفاقیت پر آنا ہی پڑے گا۔ ہمارا آئین وفاقی ڈھانچہ کی گارنٹی دیتا ہے۔ انتخابی نتائج سے ون انڈیا، ون پیپل، ون لینگویج کے نعرے کو چوٹ لگی ہے۔ جنوب کی ریاستوں میں بی جے پی کی کوششیں تقریباً ناکام رہی ہیں۔ ان ریاستوں میں علاقائی پہچان، زبان اور ثقافت کی اہمیت زیادہ ہے۔ یہ سمجھنا پڑے گا کہ ون انڈیا کا جو خواب ہے، ایک زبان، ایک رہن سہن رکھنا، یہ نہیں چلے گا۔ یہی آواز کیرالہ، تمل ناڈو اور بنگال سے خاص طور سے اٹھی ہے۔ بالخصوص بنگال جہاں بی جے پی نے بہت زور لگادیا، پھر بھی لوگوں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔
دوسری بات، ممتابنرجی کے خلاف ہر جگہ وزیراعظم نریندر مودی کا چہرہ تو کام نہیں کرسکتا، وہ تو وزیراعظم ہیں۔ تمل ناڈو میں بی جے پی کے پاس کیا چہرہ ہے؟ کیرالہ میں کیا چہرہ ہے، شری دھرن جو 85سال کے ہوچکے ہیں؟ انتخابات نے واضح کردیا ہے کہ تنوع میں اتحاد کا سبق بی جے پی کو سیکھنا ہی پڑے گا۔ ہمارے یہاں الگ الگ ثقافت ہے، سب کو ایک دھارا میں ڈالنا بہت ہی مشکل ہے، ایسا ہو نہیں سکتا۔ جہاں کیرالہ میں بائیں بازو کی جیت کی بات ہے تو یہ الیکشن بائیں بازو نے نہیں جیتا ہے۔ جیت کا پورا کریڈٹ وجین کی انتظامیہ کو جاتا ہے۔ وہاں جیت نظریہ کی نہیں، کام کاج کی ہوئی ہے۔ سیلاب آیا تھا، کورونا پھیلا ہے، اسے جس طرح سے وجین نے سنبھالا ہے، اسے لوگوں نے سراہا ہے۔ کیرالہ میں ایک اور اہم بات ہوئی ہے کہ عیسائی ووٹ بائیں بازو کو گیا ہے۔ یہ ووٹ ہمیشہ کانگریس کی جانب جاتا تھا۔ اس کمیونٹی نے بھی بہتر انتظامیہ دیکھ کر ہی وجین کے حق میں ووٹ کیا ہے۔
وہیں تمل ناڈو میں کمل حاسن جیسے اداکار الیکشن ہار گئے ہیں۔ لگتا ہے تمل ناڈو میں فلم اسٹار کی ریاست کا زمانہ ختم ہوگیا، اب نئی سیاست چلے گی۔ دیکھنے والی بات ہوگی کہ اسٹالن کے وقت کس طرح کی سیاست شروع ہوتی ہے۔ اسٹالن پرانی ’دراوڑ مدرا‘ میں نہیں ہیں۔ تمل ناڈو میں جو ہوا ہے وہ متوقع ہی تھا، دس سال سے اے آئی اے ڈی ایم کے اقتدار میں تھی۔ جیہ للتا بھی میدان میں نہیں تھیں، اسٹالن کو فائدہ ہوا۔بہرحال لوگوں کی زیادہ توجہ بنگال پر لگی رہے گی۔ جہاں ممتابنرجی کے سامنے تشدد کا معاملہ ہوگا اور ’کم منی‘ کا بھی۔ دونوں کمیوں کو کسی طرح سے سنبھالنا پڑے گا۔ بی جے پی اب بڑی اپوزیشن ہے، تین سے 75سیٹ پر آگئی ہے، لیفٹ اور کانگریس صاف ہے۔ ممتابنرجی کے سامنے چیلنج اب پہلے سے بڑا ہے۔ انہیں مرکزی حکومت کے خلاف محاذ بنانے کے ساتھ ہی حکومت اچھے سے چلاکر دکھانی ہوگی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS