دی کیرالہ اسٹوری کے پس پشت کارفرما نفسیات

0

علیزے نجف

کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں ہمیشہ سے ہی مختلف عوامل کے ساتھ کئی سارے عناصر اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں، معاشرہ اور انسان دونوں ہی ایک دوسرے کا جزو لاینفک ہیں ایک دور میں انسان اس معاشرے کی مثبت طرز پہ تعمیر کیلئے انتھک تگ و دو کرتا ہے پھر بعد کے ادوار میں یہ معاشرہ آنے والی انسانی نسلوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے کسی بھی معاشرے کی صالحیت کو برقرار رکھنے کی ذمیداری عوامی قائد اور انتظامیہ پہ عائد ہوتی ہے جس میں عوام بھی ایک بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اس کائنات کے کچھ مسلمہ اصول ہیں جو کہ آفاقی و لافانی ہیں، اور ہر مذہب اس کی تائید کرتا رہا ہے جب تک یہ اصول معاشرے کے بنیادی نظاموں میں شامل ہوتے ہیں معاشرے کی ارتقا کا سفر جاری رہتا ہے، معاشرہ غیر ضروری الجھنوں سے آزاد رہتا ہے یہ ایک مثالی فکر ہے جو کہ شاذ ہی تکمیل کو پہنچتی ہے، یہ دنیا ہمیشہ سے مختلف طرح کے اختیارات و نظریات کے ساتھ بنتی بگڑتی رہی ہے، کبھی نشیب تو کبھی فراز کے راستوں پہ چلتی رہی ہے، ہم زندگی کی انھیں زندہ حقیقتوں کے ساتھ رہتے ہیں جو کہ ناقابل یقین حد تک تغیر پذیر ہوتی رہتی ہے، بدلتے وقت کے ساتھ ہندوستانی سیاست اور معاشرے میں بھی کئی طرح کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اس وقت ہمارے معاشرے میں ایسے خودساختہ افکار و خیالات کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے جو کہ انتہا پسندی پہ مبنی ہیں اس سے گنگا جمنی تہذیب پہ ضرب پڑ رہی ہے مسلمہ اخلاقیات کے بجائے مذہب کے نام پہ خود ساختہ اقدار کی تبلیغ کی جارہی ہے اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی انارکی اس وقت ہر کسی کے سامنے ہے، دانشور طبقہ بھی اس صورت حال پہ متفکر دکھائی دے رہا ہے۔
پچھلے دنوں ‘دی کیرالہ اسٹوری’ نامی فلم ریلیز ہوئی میں نے یہ فلم دیکھی تو نہیں ہے لیکن ٹیزر دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ ایک خاص پوائنٹ آف ویو کو فکشن میں ڈھال کر اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ گویا اس کے ذریعے پہلے سے موجود لو جہاد کے پروپیگنڈہ کو سچ ثابت کرنے کیلئے مزید ثبوت کے طور پہ پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ دوسرے کسی بھی مذہب کا کوئی ایک شدت پسند طبقے کے اٹھائے گئے اقدامات کی ذمیداری اس مذہب سے جڑے تمام لوگوں پہ کیسے عائد ہوتی ہے، چلئے فرض کر لیتے ہیں کہ وہ اس فلم کے ذریعے کسی سازش کو بینقاب کرنا چاہتے ہیں تو کیا محض خیالی دنیا کو فلما کر بغیر حقیقی دستاویز کے اس کا انکشاف کرنا ممکن ہے، جذبات کے ساتھ کی جانے والی کوئی بھی بات خواہ کتنی ہی کیوں نہ سننے میں اچھی معلوم ہو اگر وہ زمینی سطح پہ اپنا کوئی وجود نہ رکھتی ہو اور اس کی کوئی دلیل نہ ہو تو جلد از جلد وہ اپنی شناخت کھو دے گی ایسے موقعوں پہ شدت پسند عوامی ردعمل بھی جلتی پہ تیل کا کام کرتے ہیں لیکن اس دورانیے میں انتظامی سطح پہ کئی طرح کا بگاڑ پیدا ہو چکا ہوگا جس کے بدترین عواقب سالوں تک معاشرے میں ظاہر ہوتے رہیں گے۔
اس فلم میں کتنی سچائی ہے اور کتنا جھوٹ ہے ہم اس پہ بحث نہیں کرتے بلکہ ہم یہاں پہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس طرح کی ذہنیت کیسے فروغ پاتی ہے۔ انسانی معاشرے میں لوگوں کی ایک بڑی آبادی ایسی ہوتی ہے جو بہا کے ساتھ بہہ جاتے ہیں ان کی اپنی کوئی سمت نہیں ہوتی وہ نہ ہی اس میں توازن قائم رکھ پاتے ہیں اور نہ ہی اس کے متعلق غور و فکر کر کے اس کی تردید کر پاتے ہیں ایک فنکار ان حالات میں اپنے فن کو اصول و ضوابط کے بجائے ان نظریات کو فن پارے میں تبدیل کر کے پیش کرنا شروع کر دیتا ہے جس کو کہ توجہ مل سکے وہ توجہ کیسی ہوتی ہے اچھی یا بری ان سے انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا ان کی خواہش بس یہ ہوتی ہے کہ انھیں لوگوں کی توجہ، شہرت اور دولت ملتی رہے وہ بحیثیت فنکار کے زندہ رہیں۔
یہ بات ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ جب کوئی چیز ٹرینڈ میں آ جائے اور اسے مقتدر طبقے کی سربراہی حاصل ہو تو لوگ بنا سوچے سمجھے اس طرف دوڑ لگانا شروع کر دیتے ہیں ایک فلم سے جڑے ہوئے فنکار کی اصل فکر یہی ہوتی ہے کہ اس کی فلم اچھا بزنس کرے عوام کی طرف سے اچھا رسپانس ملے اور اس کے فن کو عوام کی داد ملتی رہے، ایک فلم کے بنانے میں کروڑوں روپئے خرچ ہوتے ہیں اس کی ناکامی فلم پروڈیوسرز کا دیوالیہ نکال دیتی ہے اور یہ فلمی صنعت کسی کی زندگی کا سب کچھ ہوتا ہے یہ ان کی شہرت، عزت اور دولت کا دارومدار ہوتی ہے اس لئے اپنے نظریات کے ساتھ چل کر اپنے مفادات سے سمجھوتہ کرنا انھیں ایک خسارے کا سودا معلوم ہونے لگتا ہے وہ بگڑے ہوئے معاشرے کو مزید چرس بیچ کر محض اپنی دولت میں اضافہ کرنے کی سوچتے ہیں، بیشک اس طرح سے وقتی طور پہ کئی سارے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے اور عارضی مفادات کو بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن اس بیراہ روی سے پیدا ہونیوالے نقصانات اس قدر دوررس اور گہرے ہوتے ہیں کہ وہ تو بچ جائیں گے لیکن ان کی عفونت ان کی نسلوں کے مستقبل کو تعفن زدہ بناتی رہتی ہے، موجودہ وقت میں فلمی صنعت میں ایک بھونچال آ چکا ہے اس کی مخالفت کر کے اس صنعت کی کمر توڑے جانے کی کوشش شروع ہو چکی ہے ایک وقت تھا جب فلمیں ایک کامیاب بزنس کی عمدہ آرٹ کی حیثیت رکھتی تھیں لیکن آج کی تاریخ میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اب وہی فلمیں آگے جا سکتی ہیں جس کا مواد ایک خاص طبقے کی ذہنیت کے مطابق ہو، وہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا کے مصداق بدنامی کو کیش کراتے ہیں۔
دی کیرالہ اسٹوری جس کے بارے میں ہائی کورٹ نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ ایک فکشن پہ فلمائی گئی ہے اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ اکثریتی طبقہ مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر افشانی میں مصروف ہے، اگر انھیں۔ واقعی یہ لگتا ہے کہ اس میں سچائی ہے تو یوں ہی زبانی طور پہ گند پھیلانے کے بجائے اس کے ثبوت کی فراہمی پہ زور دیں تاکہ لوگوں کو یہ باور کرا سکیں کہ ہمارا غصہ صحیح ہے، لیکن جب مقتدر طبقے کی حمایت حاصل ہو تو کسی ثبوت کی کیا ضرورت وہ جذبات میں آ کر سبھی سے لوہا لے بیٹھتے ہیں لیکن کہتے ہیں نا کہ ہر اختیار کی ایک حد ہوتی ہے دی کشمیر فائلز حکومت کی منظور نظر تو بن گئی لیکن اس کے بعد اسے عالمی سطح پہ جس رسوائی کا سامنا کرنا پڑا وہ کوئی جانتا ہے دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اس لئے اختیارات کی دنیا بھی بہت مختلف ہو چکی ہے۔ جیسا کہ ٹیزر میں دکھایا گیا کہ کس طرح لڑکیوں کو مذہب کی تبدیلی پہ مجبور کیا جا رہا ہے اکثریتی طبقہ اس پہ ناراضگی ظاہر کر رہا ہے یہ غصہ اس وقت کہاں ہوتا ہے جب ان کے اپنے مذہب میں دوسرے مذاہب کی لڑکیوں کو شامل کیا جاتا ہے وہ عمل گھر واپسی کیسے بن جاتا ہے ۔ اگر غلط یہ ہے تو غلط وہ بھی ہے طاقت کے بل بوتے پہ کسی بھی فتح کو دائمی نہیں بنایا جا سکتا بشرطیکہ عوام شعور و بیداری کی راہ چلیں ۔ ہر مسلمان کے ہر عمل کو اسلام سے جوڑ کر دیکھنا اسی طرح غلط ہے جس طرح دیگر مذاہب کے ماننے والے کچھ برے لوگوں کے عمل کو اس کے مذہب کا فرمان قرار دینا غلط ہے، مذہب ابتدائے آفرینش سے اپنے اصول و قوانین کے ساتھ ناقابل تغیر حالت میں قائم رہتا ہے جب کہ انسان مسلسل تبدیلیوں کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، کسی بھی مذہب کی تعلیمات کو اس مذہب کے ماننے والے کے ہر عمل سے جوڑنا انتہائی غیر عقلی بات ہے، رہی بات داعش کی تو ہندوستانی مسلمان کب ان سے کسی تعلق کی بات کر رہے ہیں۔ مسلم قائد شروع سے ہی ان کے انسانیت سوز اقدامات پہ اعتراض کرتے ہوئے اس کی مذمت کرتے رہے ہیں تو ایسے میں ان کے فرضی و حقیقی عمل رد عمل کا ذمیدار عام مسلمانوں کو کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس میں ایسے افراد بھی رہ رہے ہیں جو کہ ملکی نظام کو قوانین کے بجائے اپنی مرضی و پسند ناپسند کے تابع کرنا چاہتے ہیں ایسے میں حکومت کی ذمیداری ہے کہ وہ نظم و نسق کو بہتر بنائے رکھنے کیلئے ان پہ کارروائی کرے محض پولرائزیشن کیلئے ان کو نظر انداز کرنا کسی طرح کی عقل مندی نہیں اور عوام کو چاہئے کہ بیجا احتجاج کے بجائے حکمت پہ مبنی اقدامات کو فوقیت دیں یہ نہ ہو کہ پٹھان کی بیجا مخالفت کی طرح یہ فلم بھی ہر کسی کو متجسس کر دے اس کو دیکھنا ان کی پہلی ترجیح میں شامل ہو جائے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS