محمد حنیف خان
جمہوریت نوع انسانی کے لیے ایک نعمت ہے ،جس نے انسانوں کو شخصی غلامی سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک جمہوری نظام حکومت کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔یہ جمہوریت بھی دو نوع کی ہوتی ہے ایک وہ جس میں دوپارٹی نظام کا رواج ہے اور دوسرے وہ جس میں پارٹیوں کی کوئی قید نہیں، ہر شخص کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ الیکشن کے میدان میں آئے، اگر عوام اسے منتخب کرتے ہیں تو موقع دیا جائے گا۔اول الذکر میں صدرکو مرکزیت حاصل ہے، امریکہ وغیرہ جبکہ ثانی الذکر نظام ہندوستان میں نافذ ہے کیونکہ یہ بہت زیادہ لچیلا ہے۔یہ ایک ایسا امکانی نظام ہے جس سے ہر شخص متمتع ہوسکتا ہے۔
صدر جمہوریہ کا عہدہ ملک میں سب سے بڑا عہدہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر جمہوریہ کوئی ایسا کام اپنی بصیرت سے نہیں کرتا ہے جو ملک کو ترقی کی اونچائیوں پر لے جانے والاہو۔سب سے اہم عہدہ ہونے کے باوجود وہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو آنکھ ناک اور کان سے محروم ہوتا ہے۔اس کی آنکھ ناک اور کان وہ پارٹی ہوتی ہے جو اس کو اس عہدے تک پہنچاتی ہے۔جس طرح ملک میں عہدہ صدارت کے لیے الیکشن محض ایک دستاویزی اور کاغذی کارروائی کی حیثیت رکھتا ہے، بالکل اسی طرح یہ عہدہ بھی ’’شو پیس‘‘ بن کر رہ گیا ہے۔اس الیکشن کا ایک ایسا نظام ہے جو پہلے سے طے کردیتا ہے کہ کس پارٹی کاامیدوار کامیاب ہوگا۔در اصل صدارتی امیدوار کا انتخاب پارلیمنٹ اور ملک کی اسمبلیوں کے دونوں ایوانوں کے منتخب نمائندے کرتے ہیں ،اسی طرح ان یونین ٹریٹریز کے نمائندے بھی اپنی حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں جو منتخب ہو کر آتے ہیں۔ اس طرح پہلے سے ہی طے ہوجاتا ہے کہ کس پارٹی کا امیدوار عہدۂ صدارت کے الیکشن میں کامیاب ہوگا۔یہ ایسا الیکشن ہے جس میں امیدوار کی صلاحیت کاکوئی دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ پارٹیاں اپنے مفادات کے مدنظر بطور صدارتی امیدوارایسے فرد کا انتخاب کرتی ہیں جو ان سے انحراف نہ کرے اور ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔
یشونت سنہا نے این ڈی اے کی صدارتی امیدوار دروپدی مرمو کے سلسلہ میں ’’ربر اسٹامپ‘‘ امیدوار کا تبصرہ کیا۔ان کا یہ تبصرہ دو امیدواروں کے مابین لڑائی کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے لیکن اگر اس کے برعکس حقیقی تناظر میں دیکھا جائے اور دروپدی مرمو کو الگ کر دیا جائے تو کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ آزاد ہندوستان میں سبھی پارٹیاں خواہ وہ بی جے پی ہو یا کانگریس ایسے ہی امیدواروں کا انتخاب کرتی ہیں جن کی حیثیت ’’ربر اسٹامپ ‘‘ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ابھی تک تو یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے والے یاہر معاملے میں خاموش رہنے والے امیدوار کو ہی ترجیح دی ہے۔کچھ ایسے بھی صدر رہے ہیں جو صدارت سے قبل تو ہر محاذ پر بہت زیادہ سرگرم رہے تھے لیکن اس عہدہ پر پہنچ کر خاموش ہو گئے۔اس عہدے کے وقار کو ٹھیس پہنچانے میں صرف پارٹیوں کا ہی کر دار نہیں ہے بلکہ ان افراد کا بھی ہے جو اس عہدے پر پہنچے۔چونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تک پہنچانے والے کون لوگ ہیں اس لیے وہ اس کا قرض اتارنے کے لیے بھی خاموش رہتے ہیں۔
صدر جمہوریہ کے پاس دستاویزی سطح پر بہت سے حقوق ہیں جو اسے دوسرے آئینی عہدے داروں سے منفرد بناتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ صدرجمہوریہ حقیقت میں کبھی اپنی بصیرت کا استعمال نہیں کرتا ہے بلکہ وہ اس پارٹی کے اشاروں کے مطابق عمل کرتا ہے جو اسے اس عہدے تک پہنچاتی ہے۔ریاستوں میں گورنر کا تقرر صدر جمہوریہ کرتا ہے،وہ اسی کے نمائندے ہوتے ہیںلیکن کیا حقیقت میں وہ اپنی بصیرت، اپنے وژن کا استعمال کرتا ہے؟جتنے بھی گورنر مقرر کیے جاتے ہیں ان کا فیصلہ حکمراں پارٹی کرتی ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس پارٹی کے ممبررہے ہوتے ہیں یا اس کے حق میں کام کیے ہوتے ہیں۔گورنر ریاستوں میں پہنچ کر آئینی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے بجائے مرکز کے ایجنڈے کو نافذ کرتے ہوئے بھی دیکھے گئے ہیں۔ کیونکہ پارٹیاں ایسے شخص کا انتخاب کرتی ہیں جن کو صدر جمہوریہ بطورگورنر مقرر کرتے ہیں۔یہی حال پارلیمنٹ میں بطور ممبر نامزدگی کا ہوتا ہے۔صدرجمہوریہ پارلیمنٹ میں دو اینگلو انڈین کو بطور ممبر نامزد کرتے ہیں اسی طرح ایوان بالا میں بارہ ایسے ممبران کی نامزدگی ان کی سطح سے ہوتی ہے جو اپنے اپنے شعبہ کے ماہر ہوتے ہیں لیکن اس کا فیصلہ بھی وہ اپنی بصیرت سے کرنے کے بجائے حکمراں پارٹی کے اشارے پر کرتے ہیں۔کسی بھی ملک سے کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو اس معاہدے پر صرف دستخط صدر جمہوریہ کے ہوتے ہیں باقی پورا فیصلہ دوسرے افراد کرتے ہیں۔ایسے میں اس عہدے کا مطلب کیا رہ جاتا ہے؟اب اگر عوام ہی اس عہدے کو ’’ربر اسٹامپ ‘‘ قرا دینے لگیں تو اس میں کیا برائی ہے؟
موجودہ صدر کا تعلق نچلے طبقے سے ہے جس وقت ان کو صدر بنایا گیا تو ہر طرف ایک ہی واویلا تھا کہ بی جے پی نے ایک دلت کو ملک کے سب سے بڑے عہدے پر پہنچایا ہے جو صرف بی جے پی ہی کرسکتی ہے اور اب دروپدی مرمو کو میدان میں لایا گیا ہے جو قبائلی خاتون ہیں،ان کے بارے میں بھی یہی باتیں کہی جا رہی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ موجودہ صدر کی وجہ سے دلتوں کی زندگی میں کیا فرق آیا یا انہوں نے اس عظیم عہدے پر رہتے ہوئے اپنے طبقے کے لیے کیا کیا ؟ اس کا اگر جائزہ لیا جائے تو نتیجہ صفر ہی ہاتھ آتا ہے۔
دوسری طرف وزیراعظم کا عہدہ دیکھ لیں۔ہمارے یہاں رائج موجودہ نظام میں سبھی طاقتیںوزیراعظم کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔وہی ہر طرح کے فیصلے کرتا ہے۔اس میں کوئی برائی نہیں کہ وزیراعظم کے پاس فیصلہ ساز قوت ہو لیکن اگر وزیراعظم صدر جمہوریہ کے فیصلوں میں دخل اندازی کرتاہے یا صدر جمہوریہ کو اپنے سیاسی داؤ پیچ سے مجبور کرتا ہے کہ وہ وہی فیصلہ کریں جو وہ چاہتے ہیں جیسا کہ ہوتا آرہا ہے، یہ ان دونوں عہدوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔اس سے جہاں ایک طرف صدر جمہوریہ کے عہدے کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے تو وہیں وزیراعظم کا عہدہ بھی بے اعتبار ہوتا ہے۔
عہدۂ صدارت یوں تو بہت اہم ہے لیکن سیاسی پارٹیوں نے اس کی اہمیت کو صفر کر دیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس عہدہ جلیلہ کو اس کا حقیقی منصب دیا جائے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان کی موجودہ سیاست کے تناظر میں یہ ممکن ہے ؟
کسی بھی امکانی صورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ عزم مصمم ہو پائے، استقلال میں استقامت ہو۔اس میں تین سطح پر کوششیں بار آور ہو سکتی ہیں۔اس کے لیے بالائی سطح سے عمل ہونا چاہیے جو شخص اس عہدے پر پہنچے، اس کو اس بات کا استحضار رہے کہ اس کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے،اس کو کسی دوسرے کے فیصلوں پر ’’آمنا و صدقنا‘‘ کہنے کے بجائے اپنی بصیرت کا استعمال کرنا ہے اور ملک کے حالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنا ہے، اس کے مطابق حکومت کو ہدایت دینا ہے کہ وہ کیا ایسا کرے جس سے خوشحالی اور امن و امان آئے۔جب تک صدرجمہوریہ اپنے عہدے کا وقار خود نہیں بحال کرے گا، اس وقت تک کوئی دوسرا نہیں کرسکتا ہے، اس کی پہل خود صدر جمہوریہ کو ہی کرنا ہوگا۔دوسرے ملک کی شبیہ سازی کی سب سے بڑی ذمہ داری حکمراں پارٹی پر ہوتی ہے،اس کا وقار اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس لیے اس کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ ملک کو ’’ربر اسٹامپ ‘‘ کے بجائے صدر جمہوریہ دے ،جو ملک کے مفاد میں فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، صرف سیاسی مفادات اور داؤ پیچ کے تحت ایسے امیدوار کا انتخاب نہ کرے۔ تیسرے عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صدر جمہوریہ کو ’’ربر اسٹامپ ‘‘ ہونے سے بچائیں خواہ اس کے لیے انہیں تحریک ہی کیوں نہ چلا نا پڑے۔
[email protected]