دن بدن گھٹ رہا ہے امریکہ کا وقار

0

پروفیسرعتیق احمدفاروقی
اکتوبر 2022میں جاری اپنی قومی سلامتی حکمت عملی میں امریکہ کے صدرجوبائیڈن نے گھریلو سطح پر جمہوریت کو پہنچے نقصان کی تلافی کرنے کا وعدہ کیاتھا۔ حالانکہ ایسا ہوتانہیں دکھ رہاہے۔ امریکی تاریخ میں پہلی بارکسی سابق صدر پر مقدمہ چلانے سے یہی لگتاہے کہ پہلے سے ہی تلخی سے پر تقطیب زدہ امریکہ میں یہ خلیج مزید چوڑی ہوگی۔ ڈونالڈ ٹرمپ پر مقدمہ چلانے کے خلاف تومیں کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتا کیونکہ وہاں صدارتی الیکشن کے بعد ہوئی کاؤنٹنگ کے دوران انہوں نے جو کچھ سطحی حرکت کی اس سے صدر کے عہدے کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔
امریکہ کی تاریخ میں اگر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ وہاں بدترین صدر کون ہواتوسبھی کے دماغ میں بناغور کئے ہوئے ٹرمپ کا نام آئے گا۔ واٹرگیٹ اسکینڈل کے تعلق سے سابق صدر نکسن پر بھی مقدمہ شروع ہواتھا لیکن کارروائی پوری ہونے سے قبل ہی انہوں نے استعفیٰ دے دیاتھا۔ اس لئے بائیڈن کو اس لئے تنقید کا نشانہ نہیں بنایاجاسکتا کیونکہ ان کی صدار ت میں ٹرمپ پر مقدمہ چلایاجارہاہے۔ امریکہ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دیگر ممالک میں بھی اس طرح کا عمل دیکھاجاسکتاہے لیکن کچھ ایسے معاملات ہیں جن کے سبب بائیڈن تنقید سے نہیں بچ سکتے۔ ریپبلکن پارٹی نے ٹرمپ کے حریف اورنقاد رہے مٹرومنی جیسے لیڈران نے ٹرمپ کے خلاف معاملہ کو خارج کرتے ہوئے اسے سیاسی ایجنڈہ کا فروغ بتایا۔ ساتھ ہی قانون کے ماہرین کا ماننا ہے کہ سیاسی حریفوں کے پیچھے پڑنا ایک خطرناک چلن پیدا ہورہاہے۔ ٹرمپ کے مقدمہ کی تنقید اس لئے بھی ہورہی ہے کہ ان کے خلاف معاملہ چلانے والے بسکٹ اٹارنی بائیڈن کی پارٹی سے جڑے ہیں۔
کوینی پیاک یونیورسٹی کے انتخاب میں دوتہائی سے زیادہ امریکیوں نے مانا کہ ملک میں جمہوریت زوال پذیرہے۔ ٹرمپ پر چلنے والا مقدمہ ہی صرف اس بیانیہ کا سبب نہیں ہے بلکہ چند دیگر محاذ پر بائیڈن کی ناکامی بھی ہے۔ ایک سبب افغانستان میں امریکہ کی ذلت آمیز شکست بھی ہے۔ امریکی فوجیوں کا طالبان کو آگے بڑھنے سے نہ روک پانا اوربائیڈن کایک بیک امریکی فوجیوں کو واپس بلالینا جیسے واقعات بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی شبیہ کو خراب کرنے میں معاون ثابت ہوئے ہیں ۔جمہوریت کا راز تویہی ہے کہ برسر اقتدار پارٹی اپنے اختیار کا بیجا استعمال پارٹی کے حریفوں کے خلاف نہیں کرے گی۔ اس کے باوجود جمہوری ممالک میں عدلیہ کے بیجااستعمال کو لیڈران پر مقدموں کے مشہورمعاملوں کا چلن بڑھ رہاہے۔ پاکستان نے عدلیہ کے فیصلے سے پہلے نواز شریف ہٹائے گئے اورپھر عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا۔ برازیل کے موجودہ صدر لولاڈی سلوا کے معاملہ کا اگرجائزہ لیاجائے تو انہیں 2017ء میں مبینہ بدعنوانی کے معاملے میں الزام ثابت کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے تک جیل میں ہی رہے جس میں برازیل کی سپریم کورٹ نے پایا کہ لولا کے خلاف معاملے کی سماعت کرنے والے جج کا رویہ جانبدار تھا۔ صدر وولسونارو کی حکومت میں وہ جج ملک کے وزیرقانون بھی بن گئے۔ اگرلولا 2018ء میں جیل میں نہ ہوتے تو وولسو نارو کا صدر بنناہی مشکل ہوتا۔
واپس امریکہ کی بات کریں تو بائیڈن جس طرح سے سیاسی حریفوں پر قانونی شکنجہ کسنے میں لگاہیں اس سے امریکی معاشرے میں تقسیم اوربھی گہری ہونے کے ساتھ ہی تقطیب کا عمل کا بڑھے گا۔ اس سے پہلے اگست میں کچھ خفیہ دستاویزوں کیلئے ٹرمپ کی رہائش گاہ پر ایف بی آئی نے چھاپہ ماراتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نائب صدر رہنے کے دوران والے خفیہ دستاویز بائیڈن کے گھر پر ملے۔ بہرحال بائیڈن اورٹرمپ کی ایمانداری ،سچائی اور سنجیدگی کا اگرموازنہ کیاجائے تو ٹرمپ بائیڈن سے پیچھے نظرآئیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ساری دنیا میں جمہوری اخلاق اوراقدار بھاری دباؤ میں ہیں۔ جمہوری ممالک میں سیاسی قیادت کے معیار میں کمی تقطیب کی سیاست کے فروغ کا خاص سبب ہے۔ لیڈران قومی میل ملاپ کی سمت میں کوشش کرنے کے بجائے تقسیمی سیاست کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس میں ذرائع ابلاغ کے کچھ حصوں اورکچھ ممالک میں بڑے حصوں کاکردار بھی مشکوک ہے۔ ایک گیلپ تحقیق کے مطابق میڈیا پر امریکی عوام کا اعتماد گھٹ کر چھتیس فیصد رہ گیاہے۔ ظاہر ہے تقطیب کا عمل محض امریکہ تک ہی محدود نہیں ہے،دنیا کے تمام حصوں میں اب اس کا بول بالا ہے ۔ جمہوری ممالک میں لیڈران پر عوام کا اعتماد سب سے نچلی سطح پر پہنچ گیاہے۔ حالانکہ امریکہ میں یہ تقطیب کچھ زیادہ دکھتی ہے اورافسوس کامقام یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ادھر چند سالوں سے یہ تقطیب کچھ اوربھی زیادہ دکھ رہی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ برائی تبھی دورہوگی جب تعلیم عام ہوجائے گی اورعوام میں سیکولر اصولوں کے تئیں بیداری پیدا کی جائے گی۔ امریکہ میں تو’ایک امریکہ دوقومیں ‘کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ سیاسی پول کے دونوں خیموں کی طرف سے جاری بیان بازی تقسیمی وتخریبی ثابت ہورہی ہے۔ یہ جماعتی تقسیم خارجہ پالیسی تک دکھتی ہے۔ جہاں امریکی رائے عامہ کا سروے یہ دکھاتاہے کہ روس کوپیچھے چھوڑ کر چین اب امریکہ کا سب سے بڑا دشمن بن گیاہے، اس کے باجود ریپبلکن پارٹی کے مقابلے ڈیموکریٹک پارٹی تب کا روس پر ہی اٹکی ہوئی ہے۔ اس کااثر اصل پالیسی پر بھی دکھتاہے جہاں بائیڈن چین کی بجائے کمزور ہوتے روس پر زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ امریکہ کی منقسم سیاست میں گراوٹ کی برابر نئی سطح دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس سے قومی مباحثہ زہریلاہورہاہے۔ امریکہ کا بین الاقوامی وقار متاثر ہورہاہے۔ اس کی وجہ سے چین جیسے تانا شاہ ملک بھی امریکہ کو انسانی حقوق اورجمہوریت جیسے مدعوں پر نصیحت کرنے لگے ہیں۔
اپنی لڑکھڑاتی جمہوریت کو سنبھالنے کے بجائے امریکہ اپنے مفاد کی تکمیل کیلئے روس ، میانمار اورایران تک تمام ممالک میں اقتدار میں تبدیلی لانے کے خاطر کوشاں ہے۔ وہ ہندوستان سمیت تمام ممالک کو انسانی حقوق کے بگڑتے حالات پر تقریر کرتاہے جبکہ امریکہ میں سالانہ ایک ہزار سے زیادہ لوگ اس کی پولیس کے ہاتھوں جان گنوابیٹھتے ہیں۔ پولیس کے ذریعے کالوں کی پٹائی اورقتل کے معاملوں میں وہاں لگاتار اضافہ ہورہاہے۔ کڑوی سچائی یہی ہے کہ تقسیمی سیاست اورتقطیب کا عمل نہ صرف امریکی جمہوریت کونقصان پہنچارہاہے بلکہ اس سے اس کی دنیاوی بالادستی کے سامنے بھی خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی حقوق انسانی کی حالت ادھر چند سالوں سے بہت بہترنہیں ہے ۔ مرکز کی حکمراں جماعت کو سنجیدگی سے محاسبہ کرناچاہیے کہ کہیں اپنے یہاں کے موجودہ حالات ہندوستان کو ’وشوگرو‘بننے میں دقت تو نہیں پیدا کررہے ہیں؟ امریکہ ہو یاہمارا ہندوستان جمہوریت کے اصل دشمن باہری ممالک میں نہیں بلکہ اندر ہی گھوم رہے ہیں۔ اب دونوں ہی ممالک کے عوام کو فیصلہ کرناہے کہ وہ خود کو اس دلدل سے کیسے نکالیں؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS