ذاتوں پر مبنی مردم شماری

0

سیاست میں ایک نعرے، ایک واقعے سے حالات بدل جاتے ہیں۔ اسی لیے سیاسی منظرنامے کی تبدیلی کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہوتا ہے، البتہ بدلتے حالات پر نظر رکھنے سے سیاست کی دِشا اور دَشا کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ذاتوں پر مبنی سروے بھی ایک نئے حالات بنا سکنے والا ایشو ہے۔ اس کی ابتدا بہارسے ہوئی ہے۔ پہلے مرحلے کا سروے ہوچکا ہے اور خبر یہ آئی ہے کہ اس سروے میں ’مغل‘ ذات شامل نہیں جبکہ ہندوستان میں ’مغل‘ ذات کے لوگوں کی خاصی تعداد ہے۔ بہار کے سیتامڑھی کی نانپور پنچایت میں مغلوں کا ایک گاؤں ٹھنگول آباد ہے۔بہار کے دربھنگہ، سمستی پور، سیوان اور سیمانچل کے کئی اضلاع میں بھی مغلوں کی خاصی آبادی ہے، حکومت بہار کو اس طرف توجہ دینی چاہیے، دیکھنا یہ چاہیے کہ سروے میں کوئی ذات چھوٹے نہیں۔ بہار حکومت کے شروع کردہ ذاتوں پر مبنی سروے کی اہمیت کا احساس کئی لیڈروں کو ہونے لگا ہے۔ نوین پٹنایک کی حکومت نے اوڈیشہ میں ذاتوں پر مبنی سروے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اوڈیشہ میں او بی سی سروے کرانے اور 12 جولائی، 2023 تک اس کی رپورٹ آنے کی خبر آئی ہے۔ دیگر ریاستوں میں بھی اسی طرح کا سروے کرانے کا مطالبہ اگرہونے لگے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے بلکہ ذات پر مبنی سروے کے قومی سطح کا ایشو بننے کا پورا امکان ہے۔ بہار کے نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے سبھی پارٹیوں سے مطالبہ کیا ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری ہر جگہ ہونی چاہیے۔‘
اترپردیش سے ذات پرمبنی مردم شماری کرانے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اور اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا مطالبہ اسمبلی میں کرچکے ہیں اور آنے والے وقت میں اگر وہ یہ مطالبہ زیادہ شدت سے کرنے لگیں تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ذات پرمبنی مردم شماری کا ایشو مسلسل سرخیوں میں ہے۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ ’اگلی بارجب مردم شماری کریں تو یہ ذات پرمبنی ہو۔ ‘کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے اس سلسلے میں وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے اور ذات پرمبنی مردم شماری کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ دراصل یہ لیڈران یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ گزشتہ برسوں میں جس طرح کی سیاست ہوئی ہے، اسے دیکھتے ہوئے ذات پر مبنی سروے یا مردم شماری کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح کے سروے یا مردم شماری کی اہمیت اس لیے بھی ہے، کیونکہ ہمارے ملک ہندوستان میں 1931 تک ذاتوں پر مبنی مردم شماری ہوتی رہی تھی بلکہ 1941 میں بھی اس طرح کی مردم شماری ہوئی تھی مگر اسے شائع نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 1951 سے 2011 تک درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی مردم شماری کے اعدادو شمار تو آتے رہے، او بی سی اور دیگر ذاتوں کے نہیں، اس لیے ذاتوں کی بنیاد پر او بی سی کے تحت آنے والی مختلف ذاتوں کے لوگوں کی حالت کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ان کے حالات کا اندازہ لگانے کے لیے وزیراعظم مرارجی دیسائی کی جنتا پارٹی حکومت نے بی پی منڈل کی سربراہی میں ’سماجی اورتعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کے کمیشن‘ کی، جسے عام طورپر ’منڈل کمیشن‘ کہا جاتا ہے، تشکیل 1979 میں کی تھی۔ 30 دسمبر، 1980 کو یہ رپورٹ صدرکے سپرد کر دی گئی تھی۔ اس میں او بی سی کو 27 فیصد ریزرویشن دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ وی پی سنگھ نے وزیراعظم بننے کے بعد اسے نافذ کرنے کی کوشش کی اور ان کی یہ کوشش 1990 میں بڑے احتجاج کی وجہ بن گئی۔ اس احتجاج نے یہ احساس دلایا تھا کہ اس ملک میں مذہب کی طرح ہی ذاتوںکا ایشو بھی حساس ایشو ہے۔ اسی لیے مذہب اور ذاتوں کے ایشوز کو بڑے احتیاط سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ لوگوں کو خوشحال اور مستحکم بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے معاملے کو انسانی زاویۂ نظرسے دیکھا جائے، اس پر سیاست نہ کی جائے مگر مذہب کا استعمال جس طرح سیاست میں ہوتا رہا ہے اور خاص مذاہب کے ماننے والوں کو نشانہ بنانے، انہیں تنگ کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے بلکہ ان کی لنچنگ کے کئی واقعات ہوچکے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات کے آنے تک ذات پر مبنی سروے یا مردم شماری اور اسی کی مناسبت سے ریزرویشن کا ایشو بہت اہمیت کا حامل بن جائے گا، اس سے ان لیڈروں کے لیے چنوتی بڑھ جائے گی جو اپنے سیاسی فائدے کے لیے خاص مذاہب کے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں، انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS