سوڈان ایک بار پھر خانہ جنگی کے دہانے پر

0

افریقہ میں وادیٔ نیل کی ایک اہم عرب ملک سوڈان میں فوج کے دو گروہ میں جو جنگ شروع ہوگئی ہے اس نے قحط زدہ اور سیاسی عدم استحکام کے شکار اس ملک کو ایک اور بحران سے دوچار کردیا ہے۔ امید یہ کی جا رہی تھی کہ جلد ہی سوڈان میں سیاسی نظام کو جمہوری بنانے کے لیے اور فوج کو واپس بیروکو ں میں بھیجنے کے لیے جلد ہی ایک سمجھوتے پر دستخط ہوجائیں گے۔ مگر یکم اپریل کے بعد سے کئی مرتبہ اس سمجھوتے پر دستخط ہوتے ہوتے رہ گئے۔
اختلافات کی وجہ فوج اور جمہوری نظام کے قیام کے لیے چلائی جا رہی ہے تحریک میں اختلاف نہیں بلکہ فوج کے دو طبقوں میں اختلاف بتایا جاتاہے۔ یہ اختلافات اتنا سنگین ہوگیاہے کہ دونوں مسلح گروپوں کے درمیان مختلف مقامات پر جھڑپیں ہورہی ہیں اور دلخراش مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ سوڈان ایک طویل عرصے سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس بحران سے قبل عمر بشیر کے دور اقتدار میں جو خود بھی ایک فوجی تھے۔ دار فر کے معاملے پر طویل خانہ جنگی چلی جس کا خمیازہ وہاں کے عام آدمی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پھر عیسائیوں کے ایک بڑے گروپ نے ایک علیحدہ ملک بنانے کے لیے جو مسلح تحریک چلائی تھی اور جس کو مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی اس تحریک نے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ دار فر میں غیر معمولی انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں میں عمر بشیر کو بین الاقوامی عدالت آئی سی سی نے طلب کرلیا۔ سوڈان میں موجودہ حالات داخلی خلفشار یا سیاسی عدم اتفاق کا ہی نتیجہ نہیں بلکہ غیر ملکی مداخلت نے بھی بدترین حالات سے دوچار کردیا ہے۔
فوج کے موجودہ حکمراں عبدالفتح البرہان ریاست میں کسی بھی سیاسی جمہوری نظام کے قیام کے لیے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ اس سے قبل 25اکتوبر 2021 میں ایک عبوری سیاسی انتظامیہ کو بے دخل کرکے قابض ہوئے تھے مگر فوج کا ایک اور ایسانظام کہ رپیڈ سپورٹس فورس Rapid Support Force کہلاتا ہے اور جو ایک خود کفیل اور خود مختار فوجی بازو ہے جو کہ سوڈان کی موجودہ فوج سے الگ شناخت رکھتا ہے۔ یہ فوجی بازو آر ایس ایف کافی مضبوط ہے اور مسلح ہے۔ سوڈان فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح البرہان مغرب کی آنکھ کا کانٹا بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ سوڈان کے ایک سخت گیر مذہبی طبقے کے حامی ہیں جو سوڈان میں مذہبی نظریات کے بالادستی سیاسی نظام کا حامی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب آر ایس ایف کی قیادت کسی بھی مذہبی نظریے یا آئیڈیالوجی سے متاثر سیاسی طبقے کا حامی نہیں ہے۔ آر ایس ایف چاہتا ہے کہ سوڈان کی فوج میں جتنے بھی مذہبی دہشت گرد تنظیموں کے کارکن کام کررہے ہیں اور فوج مختلف عہدوں پر فائز ہیں ان کو ہٹایا جائے تاکہ سوڈان کی فوج ایک خود مختار اور آزادانہ اور پیشہ وارانہ طریقے سے کام کرے۔
جنرل حمیدی کی قیادت والا یہ طبقہ نہیںچاہتا کہ جنرل عبدالفتح البرہان کی قیادت والا فوجی ٹولہ اقتدار میں زیادہ دن رہے۔ کیونکہ جنرل برہان آہستہ آہستہ منصوبہ بند انداز میں حکومت کے مکمل نظام پر قبضہ حاصل کرتے جارہے ہیں۔ ان کی حکمت عملی آزاد او رخود مختار سیاسی نظام چلانے والی ایک تنظیم فورسیز آف فریڈم اینڈ چینج (ایف ایف سی)کے درمیان مختلف سیاسی دھڑوں ، رضاکاروںتنظیموں اور پیشہ وارانہ جماعتوں اور اداروں میں اختلافات کا فائدہ اٹھا کر سیاسی اتفاق رائے قائم ہونے میں تاخیر فائدہ نظرآتا ہے۔
جنرل برہان نہیں چاہتے کہ جلدی سے اقتدار فوج سے منتقل ہو کر سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں جائے۔ ظاہرہے کہ ان کی حکمت عملی جمہوریت کے خلاف جو اہل مغرب کو پسند نہیں۔ امریکہ ،برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک ان کے خلاف برسرپیکار ہیں مگر برہان غیر معمولی چلاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی سیاسی طاقتوں کے اختلافات کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسے نظام کی طرف گامزن ہیں جو کہ روس نواز ہے۔ انہوںنے پچھلے دنوں اپنے علاقوں میں روس کی فوج کو مشق کرنے اور اپنی جنگی بیڑے تعینات کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ بیڑے ایسے بھی ہیں جو کہ نیوکلیئر ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ہتھکنڈہ مغرب کو اشتعال دلانے والا ہے۔ بہر کیف جنرل البرہان سے ایک دم الگ متصادم پالیسی اختیار کرتے ہوئے جنرل حمیدی کا رجحان اب ایف ایف سی کی طرف زیادہ بڑھ رہا ہے۔ مگر اختلافات کی ایک اور وجہ سامنے آئی کہ جنرل البرہان نے بھی ایک ایسے طبقے اور سماجی کارکنوں کی طرف توجہ دینے شروع کردی جسے ڈیموکریٹک بلاکDemocratic Block کہا جاتا ہے۔ برہان چاہتے ہیں کہ جو بھی اتفاق رائے یا سمجھوتہ معرض وجود میں آئے اسلام پسندوں کو بھی ایک اہم ذمہ داری ملے اور فیصلہ سازی میں ان کو بھی رائے دینے کا حق ملے۔
خیال رہے کہ یہ اسلام پسند تنظیموں جنرل حمیدی اور ایف ایف سی کے خلاف ہیں۔ آج سوڈان کی سڑکوں پر فوج کے ان دھڑوں میں زبردست جنگ چل رہی ہے۔ جنرل حمیدی کی سربراہی والے ریپڈ سپورٹس فورس آر ایس ایف نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ فوج کے جنگی طیاروں تک کو گرانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کشمکش میں کوئی جیتے یا ہارے مگر اصل ہار سوڈان کے ان باصلاحیت ، دوراندیش اور عظیم عوام کا نقصان ہے جو کہ اس سے قبل مختلف فوجی حکمرانوں اور تانا شاہوں کے ظلم وتشدد کے شکار رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ بحران کس حد تک ملک کو بربادی کے دوسری مرحلے میں لے جاتا ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS