عبدالعزیز
حماس نے اپنے مقابلے میں کئی سو گنا بڑی طاقت اسرائیل کو دس دن میں دوسری مرتبہ زمینی حملے میں پسپا کر دیا ،ا یک مرتبہ پھر اسرائیلی ٹینکوں کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اس ہزیمت کا بدلہ اسرائیل نے رات بھر بمباری کر کے مزید دو سو فلسطینیوں کو شہید کر کے لیا۔ یہ خبریں گزشتہ چوبیس روز سے معمول بنی ہوئی ہیں، لیکن دوسری طرف دنیا بھر کے عوام کا احتجاج بھی جاری ہے اور مسلم حکمرانوں کی منافقت حسب بھی معمول جاری ہے۔ امریکہ ،فرانس اوربرطانیہ وغیرہ کم از کم کھل کر اپنے خیالات کا تو اظہار کر رہے ہیں، امریکہ کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسلحہ دے رہا ہے اور فوج دینے کو تیار ہے۔ بحری بیڑے بھیج دیے ہیں۔ اس صورتحال پر پاکستانی سینیٹ میں سوال اٹھا ہے کہ پاکستانی فوج کب حرکت میں آئے گی۔ مسلم ممالک اپنی مشترکہ افواج کو کب حرکت میں لائیں گے۔ دنیا بھر میں مضبوط اور طاقتور افواج کے معاملے میں مسلم دنیا بہت آگے ہے۔ لیکن جب مسلمانوں کے قبلہ اوّل کا معاملہ آتا ہے تو بین الاقوامی قوانین یاد آتے ہیں۔اسرائیل کون سے بین الاقوامی قانون کے تحت فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہے۔ وہ ان کے خلاف کارروائیوں میں کون سے بین الاقوامی قوانین کا پابند ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا کو امریکاکی طرح اپنی پسند کے مطابق کسی فریق کی حمایت کا حق حاصل ہے اور امت مسلمہ کے حکمرانوں کو یہ حق ہی نہیں بلکہ ان کا فریضہ بھی ہے، مگر یہ کب حرکت میں آئیں گے یہ ابھی تک معمہ ہے۔
طوفان الاقصیٰ نے ساری مسلم دنیا میں توطوفان اْٹھایا ہی تھا لیکن اس نے مغربی دنیا میں بھی طوفان اْٹھا دیا ہے۔ اسرائیل کو ایک ذرہ برابر بھی خیال نہیں تھا کہ اس کے خلاف اس قسم کی سخت جان مزاحمت ہوگی، لیکن جہاں دنیا میں اس کی پوزیشن خراب ہوئی ہے وہیں طوفان الاقصیٰ نے مسلم حکمرانوں کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ اب دنیا بھر کے عوام کی عظیم اکثریت فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ بلا امتیاز مذہب و رنگ و نسل سب فلسطینیوں پر اسرائیل کی بمباری اور نہتے لوگوں کو نشانہ بنانے کے خلاف ہیں۔ مسلم حکومتیں تو اپنے اپنے اختیار کے مطابق تنکے برابر کام بھی نہ کرسکیں، موجودہ بین الاقوامی سیاست کے تناظر میں بہت سے لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ کسی ریاست کا اس کام میں مداخلت کرنا عالمی جنگ کو ہوا دے گا۔ لہٰذا ریاست بس اتنا ہی کرسکتی ہے کہ وہ مذمت کرے یا کچھ امدادی سامان بھیجودے۔ لیکن دنیا بھر میں حکومتی جبر کے باوجود ہونے والے غزہ مارچ میں عوام کے سمندر نے ثابت کردیا کہ وہ فلسطین کے ساتھ ہیں۔ اس مارچ نے ان دانشوروں اور حکمرانوں کا یہ مخمصہ بھی دور کردیا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور عوام نے کیا۔ فلسطین اور اہل فلسطین کو اور قبلہ اول کو بچانا حکمرانوں کا کام ہے۔ ان لوگوں نے بعض مسلم لیڈروں نے غیر مسلم حکمرانوں کا بھی مسئلہ حل کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے تو ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایک ایک مسلم حکمران کو فلسطین جا کر فلسطینیوں سے اسی طرح اظہار یکجہتی کرنا چاہیے جس طرح جوبائیڈن، میکروں اور برطانوی وزیراعظم رشی سناک نے کیا ہے۔ اگر فلسطینی سفیروں کو اپنے اپنے ملک میں اپنے ایوان اقتدار میں بلا کر ایک ایک مسلم حکمران ان کے ساتھ کھڑے ہو کر پریس کانفرنس کریں تو امریکہ کو مضبوط پیغام جائے گا۔ اس میں تو ریاست کی مداخلت بھی نہیں ہے۔ جتنے مکاتب فکر ہیں سب کے مفتیان اعظم جائیں اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کریں، پریس کانفرنس کریں۔ اصل پیغام یہی ہے کہ اس وقت ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ امت مسلمہ کو بھی ثابت کرنا ہے کہ وہ کہاں کھڑی ہے۔
امت مسلمہ تو درست سمت میں کھڑی ہے، لیکن بار بار تاریخ کی غلط سمت کا رونا رونے والے دانشوروں کے لئے ان کے منہ پر طمانچہ ہے کہ مسلم حکمران ایک بار پھر تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ مسلم عوام سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے اسرائیل کا خاتمہ کیا کہ نہیں، صرف یہ پوچھا جائے گا کہ تم کس طرف کھڑے تھے۔ بالکل اسی طریقہ جس طرح کسی سے یہ سوال نہیں ہوگا کہ تم نے دجال کو قتل کیا کہ نہیں بلکہ صرف یہ پوچھا اور دیکھا جائے گا کہ کون کہاں کھڑا تھا، لیکن مسلم حکمرانوں سے صرف کھڑے رہنے کا سوال نہیں ہوگا ان سے تو سوال یہ بھی ہوگا کہ جب فلسطین کی بے بس عورتیں، مرد اور بچے پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ اس جگہ کے لوگ ظالم ہیں، ان سے ہمیں بچائو تو تم کیوں ان کے لیے لڑنے نہیں گئے۔ عوام کو تو بہت سے استثنیٰ حاصل ہوسکتے ہیں۔ بیماری، ضعف، غربت، عورت وغیرہ لیکن حکمرانوں کو ان میں سے کوئی استثنیٰ نہیں ملے گا۔ انہیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تھے یا فلسطینیوں کے ساتھ تھے۔ اس کی واضح نشانی یہی ہے کہ جو مسلم یا غیر مسلم حکمران خاموش بھی ہیں اسے اسرائیل کا ساتھی تصور کیا جائے گا اور جو آواز اٹھا رہا ہے جو فلسطینیوں کی مدد کررہا ہے اسرائیل کی رسد کے راستے بند کررہا ہے وہ فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ اب یہ حجت تمام ہوچکی ہے کہ مسلم حکمران کیوں فلسطین کی مدد کریں۔ اگر امریکہ کھلے عام مدد کرسکتا ہے تو مسلمان بھی کرسکتے ہیں، کوئی بین الاقوامی قانون انہیں نہیں روک سکتا۔ بس صرف امریکی اور اسرائیلی غلامی نے ان کے پیروں میں بیڑیاں، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال رکھی ہیں اور دماغوں کو مفلوج کررکھا ہے۔ مسلم حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں، امریکہ و اسرائیل یا فلسطین کے وہ بتائیں کہ کس کا ساتھ دیں گے۔
mail:[email protected]
مسئلہ فلسطین: مسلم حکمرانوں کی بے عملی کب تک
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS