الٹی گنگا بہاتے مودی کے وزیر

0

مرکز کی مودی حکومت میں احتساب اور جواب دہی کاتصور بالکل ہی منفرد اور یگانہ ہے۔کامیابی کا سہراوزیراعظم مودی اور ان کی پارٹی اپنے سر سجاتی ہے اور ناکامیوں کانزلہ حزب اختلاف پر گرایاجاتا ہے۔بدحکمرانی، جبر و ظلم، قانون سے کھلواڑ، آزادیٔ اظہار پر پہرے وغیرہ کے الزامات تواس حکومت کیلئے ’سازش‘ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ مہنگائی،بے روزگاری، بھکمری کی جواب دہی سے بھی حکومت مبرا ہے۔ ڈگمگاتی معیشت، مہنگاڈالر، کمزور روپیہ کی ذمہ داری بھی اپوزیشن کے سر ڈالی جاتی ہے۔اسی طرح اپوزیشن کے سوالات اور تنقیدکو بھی حکومت کی ’ ترقی‘ سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش بتایا جاتا ہے۔اب تک کی ملکی روایت میں یہ گنگاکبھی الٹی نہیں بہی تھی۔عوام کی توجہ ہٹانے کا الزام اب تک حکومتوں پر ہی آتا رہا ہے۔ مگرمودی کابینہ کے وزیراشونی وشنو کا کہنا ہے کہ اب یہ یہ کام اپوزیشن کررہاہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر کہتے ہیں کہ حکومت کے ناقدین ’ توجہ ہٹانے‘ کی سیاست میں ملوث ہیں کیوں کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں ملک کی ترقی کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔
مرکزی وزیر کا یہ دلچسپ بیان اپوزیشن لیڈران کے ٹیلی فون ٹیپ کیے جانے کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔مشہور فون مینوفیکچرنگ کمپنی ’ایپل‘ کا موبائل استعمال کرنے والے راہل گاندھی، اکھلیش یادو، سیتارام یچوری اور مہواموئترا سمیت اپوزیشن کے کئی بڑے لیڈروں نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت ان کا فون ٹیپ کررہی ہے۔ راہل گاندھی نے منگل کے روز باقاعدہ ایک پریس کانفرنس کرکے یہ انکشاف کیاکہ انہیں ’ ایپل‘ کمپنی کی جانب سے ایک ای میل موصول ہواہے، جس میں انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ ان کے فون ’ریاستی سرپرستی میں حملہ آور ٹیپ ‘ کر رہے ہیں۔ کئی دوسرے اپوزیشن لیڈروں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ راہل گاندھی نے اس بارے میں کہا ہے کہ اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حکومت چاہے تو ان کا فون چھین سکتی ہے،لیکن یہ نہ صرف پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے بلکہ جمہوریت میں اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی بھی کوشش ہے جس کی مخالفت کی جانی چاہیے۔راہل کے انکشافات کے بعد اشونی وشنوسامنے آئے، بجائے اس کے کہ معاملے کی سنگینی پر بات کرتے انہوں نے اس پورے معاملے کو ہلکا کرکے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا۔ مرکزی وزیرنے کہا کہ ایپل کی طرف سے بھیجے گئے ای-میل سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس کوئی واضح معلومات نہیں ہے، انہوں نے ایک اندازے کی بنیاد پر 150 ممالک میں لوگوں کویہ الرٹ بھیجاہے۔اس کے بعد وزیرموصوف نے کانگریس اور راہل گاندھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ جو لوگ ملک کی ترقی نہیں دیکھ سکتے، وہ تباہ کن سیاست کر رہے ہیں۔ جب بھی ان زبردستی تنقید کرنے والوں کے پاس کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا ہے، وہ صرف اپنی نگرانی کی بات کرتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں ملک کے اندر ہورہی ترقی سے عوام کی توجہ ہٹانے کی یہ کوشش ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب حکومت پر ٹیلی فون ٹیپ کیے جانے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔اس سے پہلے اسرائیل ساختہ اسپائی ویئر پیگاسس کے ذریعہ اپوزیشن لیڈران، ملک کے کئی ممتاز شہریوں، صحافیوں، وکلا، سماجی کارکنان سپریم کورٹ کے کئی بڑے عہدیداروںحتیٰ کہ نیتن گڈکری جیسے مودی کابینہ کے سینئر ساتھیوںکی بھی جاسوسی کیے جانے کا الزام لگ چکا ہے۔ اس وقت بھی حکومت نے اس بات کی تردید کی تھی لیکن جس مستند طریقے سے یہ انکشاف ہوا اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ غالباً یہ مسئلہ پیدا ہونے کے بعد اتنے ہی خفیہ طریقے سے اس کا استعمال روک دیا گیا ہو گا۔ تاہم کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ جاسوسی روک دی گئی ہو گی۔اس کے بعد بھی کئی بار حکومت پر یہ الزامات لگ چکے ہیں کہ وہ اپوزیشن لیڈروں اور ناقدین کو ڈرانے دھمکانے کیلئے ان کے ٹیلی فون کال کوٹیپ کررہی ہے حتیٰ کہ انٹر نیٹ چیٹ اور دوسرے مواد کی نگرانی بھی کی جارہی ہے لیکن ہر بار حکومت اس سے انکاری رہی۔
اس بار معاملہ اس لیے زیادہ سنگین ہوچکا ہے کہ ’ ایپل‘جیسی مستند اور بھروسہ مند فون کمپنی نے ’ اسٹیٹ اسپانسرڈ‘ حملہ سے بچائو میں معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملے ریاستی سرپرستی میں ہورہے ہیں، اس لیے ان پر قابو پانا مشکل ہے۔ ’ایپل‘ کے بیان اور حکومت کے انکار کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوائے مرکز کی مودی حکومت کے آخر کسی دوسرے ملک کی حکومت کو ہندوستان کے اپوزیشن لیڈروں کے فون ٹیپ کرنے میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب مودی حکومت کو دینا چاہیے اس کے بجائے حکومت کے وزیراسے اپوزیشن کی ’توجہ ہٹائو‘ سیاست بتا رہے ہیں۔ یہ الٹی گنگا صرف مودی حکومت میں ہی بہنی ممکن ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS