غزہ- بے بس کی پکار

0

دنیائے فانی میں اس وقت بسنے والے نفوس تقریباً 8ارب کی آبادی پر مشتمل ہیں، جن میں 25فی صد دین اسلام کے ماننے والے مسلمان شامل ہیں۔ ویسے تو دنیا میں وحشت، درندگی، آمریت، غنڈہ گردی اور فسطائیت کا ماحول گرم ہے، مگر بحیثیت مسلم امت و قوم سب سے زیادہ وقت کے طاقتور ممالک کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، جن میں اسرائیل و امریکہ پیش پیش ہیں۔ حالیہ چند دنوں میں جس خطے کے مسلمان سب سے زیادہ ان طاقتور قوتوں کے مظالم کا شکار ہیں ان میں غزہ، فلسطین و بیت المقدس میں رہنے والے مسلمان ہیں۔ حماس، حزب اللہ اور نہتے فلسطینی جس طرح ان طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کررہے ہیں اس نے دنیا کو حیران و پریشان کردیا ہے۔ یہی وہ موقع ہے جب ان بکھرے خیالات رکھنے والوں کو دین اسلام کی حقانیت سے روشناس کرایا جاسکتا ہے۔ سب سے اہم بات اس مرتبہ حماس کی وہ پیش رفت ہے، جس نے اسرائیل امریکہ و یورپ کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔
اگر اس وقت کوئی سویا ہوا ہے اور بے پرواہ ہے تو وہ مسلمان حکمران ہیں جن کے ملکوں کو اسلامی ریاست سمجھا جاتا ہے۔ ماسوا ایران، ترکیہ، کویت، مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان سمیت دیگر اسلام کا دم بھرنے والے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کررہے۔ جس کی وجہ سے دشمن اسرائیل اور اس کے سرپرست مست و سرپھرا امریکہ گیدڑ بھبکیاں میڈیا کے ذریعے دے رہا ہے۔ اس وقت اگر تمام مسلم ممالک ایک زبان اور ایک ارادے کے ساتھ بیت المقدس قبلہ اوّل اور فلسطین پر سے قبضہ ختم کرانے کے لئے میدان عمل میں آجائیں تو ان کے غرور خاک میں مل جائیں گے ۔ گو کہ صرف عالم اسلام ہی میں نہیں دنیا کے دیگر چھوٹے بڑے ممالک میں اسرائیل کی درندگی و غنڈہ گردی کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں، ریلیاں نکالی جارہی ہیں مگر اس وقت میدان عمل میں نکلنے کی ضرورت ہے۔
ہمیشہ کی طرح پاکستان کی حکومت جو اسلام کا قلعہ کہلاتی ہے زبانی جمع خرچ اور بیانات کے سوا کچھ نہیں کررہی۔ البتہ ملک میں اسلامی، دینی تنظیمیں ضرور شاہراہوں پر مظاہرے اور اجتماعات کررہی ہیں۔ یہ بھی حوصلہ افزا بات ہے کہ سول سوسائٹی بھی اپنا کچھ نہ کچھ کرادار ادا کررہی ہیں۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ اسلامی حکومتیں خاص طور پر مسلم ملک کی حکومت اور عسکری قیادت تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر کمر کس لیں اور تمام رکاوٹوں کو توڑنے کے ساتھ ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے غزہ پہنچ جائیں ،جہاں متاثرین پکار پکار کر امت مسلمہ سے مخاطب ہیں کہ خدارا ہماری مدد کرو، اب نہیں تو کھبی نہیں۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ مستقبل قریب و بعید ایسی صورتحال کا سامنا تمہیں ہو اور اس وقت جہاد کا موقع ہاتھ سے نکل چکا ہو تم تنہا رہ جائو۔
دراصل حماس کا اسرائیل کے قبضے والے علاقے میں پیش قدمی خداوند کریم کی تائید ہے۔ ایک ایسا ظالم جس کے نام سے دنیا کانپتی ہو، یہ کیسے ممکن ہے کہ کمزور آزادی کی تحریک چلانے والا مجاہد رہنما ایسا قدم اٹھالے جو بظاہر دنیا کے لئے خودکشی سے کم نہیں۔ ایمان رکھنے والے اس معرکے کو معجزے سے تعبیر کررہے ہیںاور ان کا کہنا ہے کہ دراصل اسرائیل کو ربّ العالمین نے اس وقت ایسا گونگا، بہرہ اور عقل سے عاری کردیا کہ وہ سویا ہوا تھا۔ اس پر کچھ جاہل یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سوئے ہوئے شیر کو جگانے کی کیا ضرورت تھی؟
ایسے فلسفی احمقوں کس جنت میں رہتے ہیں۔ انہیں پتا ہی نہیں کہ اس وقت جو آزادی کی تحریکیں اٹھ رہی ہیں وہ دراصل اسی جدوجہد کا ثمر ہے جو فلسطین کے نہتے صف آرا ہیں۔ یہ اسی کی برکت ہے کہ اللہ ربّ العزت نے حماس سے یہ کام لیا اور اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا کہ وہ غفلت اور دنیاوی طاقت رکھنے والے گروہوں سے متاثر نہ ہوں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی تائید حاصل کرتے ہوئے، اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان مجاہدین کا ساتھ دیں جو امریکہ و اسرائیل کے مدمقابل آئے ہیں۔
(سید وزیر علی قادری کے مضمون سے ماخوذ)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS