اپوزیشن اتحاد پہلی ہی آزمائش میں مائل با انہدام؟

0

ہندوستان جیسے بڑے جغرافیائی، مختلف مذاہب ومکاتب فکر اور زبانوں والے ملک میں سیاسی محاذ پر پیچیدگیوں کا آنا کوئی غیر فطری نہیں ہے۔ کیرل اور کشمیر میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ دونوں ریاستوں کی بودو باش ، زبان اور کلچر اتنا ہی مختلف ہے جتنی گجرات اور مغربی بنگال کی ہے۔ یہی ہندوستان کی طاقت ہے۔
پچھلے دنوں دہلی میں کئی اپوزیشن پارٹیوں نے مل کر ایک ایسا اتحاد بنانے کی کوشش کی ہے جو مرکز میں موجودہ بی جے پی کی سرکار کے سامنے بڑا چیلنج کھڑا کرسکے اور 2024کے الیکشن میں کوئی خاص اور قابل توجہ متبادل ملک کے سامنے پیش کرسکے۔ زبانی طور پر یہ دعوے اور ارادے ، اعلیٰ اقدار پر مبنی کہے جاسکتے ہیں، مگر جب زمین پر ان ارادوں کو اتارنے کا موقع آتا ہے تو پیچیدگیوں اور تضادات سامنے آتے ہیں۔ آج دہلی میں کمیونسٹ پارٹی نے ایک میٹنگ کرکے اپنے حلقۂ اثر کے دو صوبوں مغربی بنگال اور کیرل میں بالکل منفرد حکمت عملی اختیار کر نے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل بایاں محاذ اور کانگریس پارٹی وغیرہ نے یہ امید ظاہر کی تھی کہ 2024کے الیکشن سے قبل ایک ایسا مشترکہ محاذ بنا لیا جائے گا جو ہر سطح پر بی جے پی کو چیلنج کرے گا۔ کمیونسٹ محاذ اگرچہ منفرد حکمت عملی اور نظریات کی حامل پارٹیاں ہیں، مگر بی جے پی کو شکست دینے و ملک کے سیکولر ڈھانچے اور آئین کو بچانے کے نام پر اس مکتب فکر نے اس محاذ میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا، جس کا نام ’ انڈیا‘ رکھا گیاتھا۔ کیرل میں اگرچہ بایاں محاذ گزشتہ 2016سے اقتدار میں ہے اور حزب مخالف محاذ یعنی یو ڈی ایف جس میں مسلم لیگ اور کانگریس پارٹی کلیدی پارٹیاں ہیں ۔ حکمراں محاذ کی سخت مخالف ہیں۔ کیرل میں دہائیوں تک یہ دو محاذ ہی اقتدار میں رہے ہیں اور ہر الیکشن میں حکمراں محاذ ہارتا اور اپوزیشن اقتدار میں آتی رہی ہے، مگر پچھلی دفعہ کے 2021 کے الیکشن میں یہ روایت ٹوٹی اور ایل ڈی ایف یعنی لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ نے اپنا اقتدار برقرار رکھا اور کانگریس کی قیادت والے محاذ مسلسل دو مرتبہ سے اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے مجبور ہیں۔ کیرل میں ریاستی سطح کی سیاست بالکل الگ ہے۔ وہاں پر مسلم لیگ جیسی جماعت کانگریس کے ساتھ اتحاد میں شامل رہ کر اس دور میں بھی برسراقتدار رہی جب ملک کے تمام حصوں میں کانگریس کے خلاف 1992میں بابری مسجد کے انہدام کے وقت سخت ناراضگی تھی۔ یہ دور اور اس دور میں بھی مسلم لیگ کے رویے میں تبدیلی کا نہ آنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شمالی ہند وستان کے ’مسلمانوں ‘ اور جنوبی ہندوستان خاص طور پر کیرل کے مسلمانوں کی سوچ میں کتنا فرق ہے۔ اگرچہ اس زمانے میں بھی مسلم لیگ کو بدترین بحران سے گزرنا پڑا تھا اور پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی ۔ ایک دھڑا ممبر پارلیمنٹ جی ایم بنات والا اور دوسرا دھڑا الحاج ابراہیم سلیمان سیٹھ کی قیادت انڈین نیشنل لیگ میں تقسیم ہوا اور اس تقسیم کے باوجود بھی کیرل میں مسلم لیگ کانگریس کے ساتھ اتحاد برقراررکھنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ بہر حال آج کے حالات بھی مختلف نہیں ہیں ۔ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں کا میزورم اور مغربی بنگال میں ایک ساتھ الیکشن لڑنا دونوں پارٹیوں کی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے۔ پچھلے الیکشن بھی بی جے پی کے خلاف کانگریس پارٹی اور کمیونسٹ ایک ساتھ لڑے تھے ۔ مغربی بنگال میں اس وقت ترنمول کانگریس کا اقتدار ہے اور ممتا بنرجی کانگریس وکمیونسٹوں اور دونوں کے علاوہ بی جے پی سے بھی اکیلے لوہا لے رہی ہیں۔ ایسے حالات میں انڈیا اتحادکا متحد رہنا بہت مشکل کام تھا۔ کمیونسٹ پارٹی مغربی بنگال میں کانگریس اور ترنمول کانگریس کے ساتھ جا کر اپنی زمین ختم نہیں کرنا چاہتی۔ اگرچہ یہ بات بھی صحیح ہے کہ مغربی بنگال میں ترمتمول کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی نہ کانگریس کی اور نہ ہی کمیونسٹ پارٹیوں کی وہ پوزیشن رہی ہے جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی جہاں تک مغربی بنگال کا معاملہ ہے یہ کانگریس کے لیے ٹیڑھی کھیر ہے۔ کیونکہ ترنمول کانگریس اور کانگریس پارٹی کے لیڈروں کے درمیان پچھلے دنوں بنگلور و کے کانفرنس میں زبردست گرم جوشی دیکھی گئی تھی۔ اب مغربی بنگال میں کانگریس کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے یہ دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ کانگریس کے لیے کیرل بھی ایک کٹھن رہ گزر ہے۔ ایل ڈی ایف کا لگاتار دو میقات تک برسراقتدار رہنا کیرل جیسی ریاست میں کانگریس اور انڈین یونین مسلم لیگ دونوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ راہل گاندھی 2019میں ایک مسلم غلبہ والے پارلیمانی حلقہ وینارڈ سے الیکشن جیتنے کے بعد ہی لوک سبھا میں اپنی موجودگی درج کراسکے ہیں۔ اگرچہ کیرل میں ترنمول کانگریس نہیں ہے، مگر پھر بھی کانگریس لوک سبھا الیکشن اور بعد ازاں اسمبلی الیکشن میں وہاں کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے یہ دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ کل ملا کر کانگریس اور کمیونسٹ دونوں کے لیے ان دونوں ریاستوں میں اپنی اپنی زمین بچا کر و بی جے پی اور اس کی دودھ شریک پارٹیوں کے لیے چیلنج کھڑا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ یہ صورت حال نظریاتی اور سیاسی دونوں سطحوں پر کانگریس کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS