ایران میں جاری عوامی احتجاج گہرے سماجی و اقتصادی بحران کا غماز

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

ایران میں ان دنوں ایران کی اخلاقی امور کی پولیس اہلکار کے ہاتھوں 22سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی پردہ معاملہ میں گرفتاری اور اس کے بعد اس کے مبینہ قتل کے بعد سے شدید احتجاجات جاری ہیں اور اب تک بے شمار جانیں ان کی نذر ہوچکی ہیں۔ ایران کے سرکاری مصدر سے مہلوکین کی جو تعداد شائع کی گئی ہے اس کے مطابق اکتالیس افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جب کہ حقوق انسان کے میدان میں سرگرم عمل رہنے والی بین الاقوامی اور ایرانی تنظیموں نے پولیس اور سیکورٹی عملہ کے حملہ کے نتیجہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 بتائی ہے۔ حقوق انسان ایران نامی تنظیم جس کا ہیڈکوارٹر ناروے میں ہے اس نے جمعہ کو یہ بتایا کہ احتجاج میں کم از کم 50 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے دفاع کے لئے سرگرم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے بیان میں کہا کہ گزشتہ دنوں میں مظاہرہ کرنے والوں کو ایرانی سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے جان لیوا رد عمل کا مقابلہ کرنا پڑا ہے اور یہ سلسلہ لگاتار جاری ہے اور اسی لئے اس تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک آزاد جانچ کمیٹی تشکیل دی جائے جو تمام پہلوؤں سے گزشتہ ہفتہ کے معاملہ کی جانچ پڑتال کرے۔ اس کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مہلوکین کی تعداد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 21 ستمبر کو سیکورٹی اہلکاروں نے احتجاج کرنے والوں پر جو گولیاں چلائی تھیں۔ان سے 19 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں 4 بچے بھی شامل تھے۔ ایمنسٹی کے مطابق ابلاغ اور میڈیا کے تمام وسائل اور انٹرنیٹ کو بند کرکے ایک قسم کے اندھیرے میں انسانی زندگی پر ایرانی اتھارٹی جس شدت سے حملہ کر رہی ہے وہ فکر و پریشانی کا باعث ہے۔ انسانی جانوں اور عوامی ثروت کی تباہی کے علاوہ سیاسی لیڈران اور صحافیوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جن کی تعداد 8 سے 12 تک بتائی جارہی ہے۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں احتجاج کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد گرفتار ہوئی ہے۔ گیلان کے پولیس چیف ذکراللہ مالکی کے مطابق صرف گیلان میں ’فسادیوں‘ کی گرفتاریوں کا جو عمل شروع ہوا ہے اس میں اب تک بشمول 60 خواتین 739 لوگ گرفتار ہو چکے ہیں۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ نے مالکی کے حوالہ سے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ گرفتاریوں کے دوران مبینہ ملزمین کے گھروں سے بڑی تعداد میں ہتھیار اور گولہ و بارود برآمد ہوئے ہیں۔ ایران کے ایک دوسرے شہر کرمان کے جوڈیشیل چیف ابراہیم حمیدی نے بھی گرفتاریوں کی خبر دی ہے اور جن لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں ان کو فسادیوں کا سرغنہ کہہ کر یاد کیا ہے۔ حمیدی کے بقول ایران میں جاری احتجاج کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اس عوامی مظاہرہ کو انہوں نے سطح آب پر تیرنے والے جھاگ سے زیادہ اہمیت دینا گوارہ نہیں کیا ہے۔ ایران کا یہ شہر کرمان اس اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ قدس بریگیڈ کے سابق سربراہ قاسم سلیمانی جنہوں نے مشرق وسطیٰ بالخصوص عراق و شام اور یمن میں ایران کے اثر و رسوخ کو بلندی پر پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور جن کو امریکہ نے ڈرون حملہ میں دو سال قبل عراق میں قتل کر دیا تھا یہ شہر ان کا مولد ہے اور قاسم سلیمانی کو ہیرو کی طرح پورے ایران میں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ لیکن عوامی احتجاج کی شدت ایسی ہے کہ قاسم سلیمانی کے اپنے شہر میں ہی لوگوں نے ان کے پوسٹر کو نذر آتش کیا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں امام خامنہ ای کے پوسٹروں کو بھی جلانے کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ خاص طور سے طلبہ اور احتجاج کاریوں کے ذریعہ بابل یونیورسٹی کے دروازہ پر لگے خامنہ ای کے بڑے سے پوسٹر کو پھاڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ 2017 اور 2019 میں بھی جب ایران کے اندر اقتصادی اور معاشی تنگی معاملوں پر عوام کا احتجاج اٹھ کھڑا ہوا تھا تب بھی خامنہ ای کے پوسٹرز ایران کے مختلف شہروں میں نذر آتش کئے گئے تھے۔ گویا یہ بات قدرے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مہسا امینی قتل کے معاملہ نے کئی دہائیوں سے مختلف اقتصادی و سیاسی مسائل سے جوجھ رہے ایرانی عوام کو یہ موقع دے دیا ہے کہ وہ اپنے غصہ کا اظہار کرکے ارباب اقتدار کو یہ پیغام دے دیں کہ اب ان کی عوام مخالف پالیسیاں گھٹن پیدا کر رہی ہیں اور ایرانی عوام کی اکثریت اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ایران کا یہ حالیہ احتجاجی سیلاب دراصل 13 ستمبر کے واقعہ کی کوکھ سے نکلا ہے۔ اس وقت ایرانی نظام نے یہ توقع بھی نہیں کی تھی یہ معاملہ اتنا طول پکڑ جائے گا کہ ایران کے اندر اور باہر اس پر ایسے شدید مظاہرے ہوں گے اور دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور حقوق انساں کی تنظیمیں اس واقعہ پر اپنی توجہ مرکوز کر دیں گی۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ ایران کی اخلاق امور کی نگراں پولیس نے بائیس سالہ مہسا امینی کو پردہ سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا تھا۔ لیکن تین دنوں کے بعد ایک ہسپتال میں اس کا انتقال ہوگیا۔ خواتین حقوق کے لئے سرگرم افراد کا پولیس عملہ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے مہسا پر زیادتیاں کی تھیں اور اس کے سر پر سخت چوٹ آئی تھی جس کے نتیجہ میں مہسا امینی کی موت ہوگئی۔ ایرانی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ مہسا امینی پہلے سے ہی امراض کا شکار تھی جس کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی۔ ایران کے ذمہ داروں نے کہا ہے وہ اس مسئلہ پر مزید تحقیق کر رہے ہیں البتہ پولیس کے ذریعہ قتل کئے جانے کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ ایران کے سرکاری بیان کے مطابق مہسا امینی کی موت کا سبب حرکت قلب کا بند ہونا تھا۔ مہسا کے اہل خانہ نے گزشتہ ایک ہفتہ میں کئی بار اس بات سے انکار کیا ہے کہ مہسا کسی بھی مرض میں پہلے سے مبتلا تھی۔ ایرانی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اخلاقی امور کی ذمہ دار پولیس کے پاس کوئی اسلحہ یا تعذیب کے وسائل نہیں ہوتے ہیں اس لئے اذیت دے کر مار ڈالنے کا الزام ناقابل قبول ہے۔ بہرکیف! اس معاملہ کی اصل حقیقت کیا ہے اس کے بارے میں تصویر آئندہ چند ہفتوں میں صاف ہو جائے گی اور احتجاج بھی ختم ہو جائے گا۔ لیکن ایران کو اس پہلو سے غور کرنا ہوگا کہ وہ اپنے داخلی مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمیشہ خارجی طاقتوں کو الزام دے کر اپنا پلہ نہیں جھاڑ سکتا ہے جیسا کہ مہسا امینی معاملہ میں بھی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ صدر رئیسی بھی ابھی اقوام متحدہ میں خطاب کرکے نیو یارک سے ایران پہنچے ہیں اور سب سے پہلا بیان یہی جاری کیا ہے کہ احتجاج کے نام پر فساد پھیلانے والوں سے سختی کے ساتھ پیش آیا جائے کیونکہ وہ خارجی عناصر کے ہاتھ کا آلۂ کار ہیں۔ وہ ایرانی معاشرہ کی اس سچائی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ وہ 1979 کے خمینی انقلاب کا بوجھ اٹھانے کے لئے مزید تیار نہیں ہے۔ ایرانی عوام کو اس سے سروکار نہیں ہے کتنے عرب ممالک میں ایران کا مسلح اثر و رسوخ پہنچ چکا ہے اور خمینی انقلاب کا دائرہ کتنا بڑھ چکا ہے۔ وہ بس اس بات کی تمنا کرتے ہیں کہ انہیں اقتصادی کساد بازاری اور معاشی تنگی کے عذاب سے چھٹکارہ ملے اور ایران کی دولت و ثروت کو خارج از ملک ٹھکانوں پر سرگرم عمل ایرانی ملیشیاؤں پر خرچ کرنے کے بجائے ملک کے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ ایرانی خواتین کا یہ بھی مطالبہ ہے ان کی زندگی کو بیجا طور پر کنٹرول نہ کیا جائے اور انہیں یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں پردہ جیسے معاملہ پر کس حد تک عمل کریں۔ خواتین کا یہ مطالبہ اس حد تک سیاسی اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے کہ سابق صدر محمد خاتمی کے حامیوں کے ذریعہ چلائی جانے والی پارٹی ’ایران عوامی اتحاد‘ نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ پردہ سے متعلق اجباری قانون کو ختم کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایران کی ایک دوسری اہم سیاسی پارٹی ’اعتماد ملی‘ کے لیڈر فصیل مہدی کروبی نے بھی پہلی بار یہ مطالبہ کیا ہے کہ حجاب کے قانون کو کالعدم قرار دیا جائے۔ در اصل تمام حلقوں سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ اتھارٹی اقتصاد و معاش جیسے ملک کے اہم مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور زندگی کے باقی معاملوں میں عوام کو آزادی مہیا کرے تاکہ ایک صحت مند معاشرہ کے طور پر وہ آگے بڑھ سکیں۔ ایران کے مسائل ویسے بھی بہت ہیں۔ ایک طرف اپنے ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہیں تو دوسری طرف نیو کلیئر معاہدہ معاملہ پر پیچیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ عراق اور یمن میں اس کی مسلسل مداخلت نے حالات کو سنگین بنا دیا ہے ایسے میں داخلی انتشار کی کیفیت صرف ایران کو ہی نہیں بلکہ پورے خطہ کو مزید عدم استحکام سے دو چار کر دے گی اور مغربی ممالک کے ہاتھ میں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے ایک اور ہتھیار آ جائے گا جس کا استعمال اسلافوبیا کو بڑھاوا دینے میں کیا جائے گا۔ اس لئے ایران کو چاہئے کہ وہ مہسا امینی معاملہ کو خارجی عناصر کے ذریعہ کی جانے والی سازش کے پہلو سے دیکھنے کے بجائے اپنی پالیسیوں کی ناکامیوں کو دور کرنے کے لئے ہاتھ آئے موقع کے طور پر استعمال کرے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS