نئی اسرائیلی حکومت کی تشکیل انتہا پسندوں کے ہاتھوں سے ہوگی

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

مشرق وسطیٰ میں ارض فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کے نتیجہ میں استعماری جمہوریت کی علامت کے طور پر قائم ہونے والا ملک اسرائیل گزشتہ چار برسوں سے کس قدر سخت سیاسی بحران کا شکار تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی 74 سالہ تاریخ میں اب تک 25 عام انتخابات ہوئے ہیں جن میں سے 5عام انتخابات صرف گزشتہ چار برسوں میں عمل میں آئے ہیں۔ اس بار کا نتیجہ اسرائیل پر سب سے طویل مدت تک حکومت کرنے والے سابق وزیر اعظم نتن یاہو کے لئے بہت امید بخش ثابت ہوا اور اس بات کا پورا امکان ہے کہ وہ اگلی تشکیل پانے والی حکومت میں وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز ہوں گے کیونکہ ان کی محنت سے اسرائیل کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو سکا ہے کہ تشدد پسند یہودی جماعتیں اس بار کے انتخاب میں بڑے پیمانہ پر کامیابی حاصل کر پائی ہیں۔ اسرائیل کا پارلیمنٹ جس کو کینسیٹ کہا جاتا ہے اس میں 120 سیٹیں ہیں جن میں سے 64 پر انتہا پسند اسرائیلی مذہبی پارٹیوں نے قبضہ جما لیا ہے۔ ان میں 32 سیٹوں پر خود نتن یاہو کی پارٹی لیکوڈ نے جیت حاصل کی ہے جب کہ باقی نصف پر اس کی حلیف سیاسی پارٹیاں کامیاب ہوئی ہیں۔ ان میں سے 14 سیٹیں مذہبی صہیونی جماعت کو ملی ہیں، 10 سیٹوں پر شاس پارٹی کے نمائندے منتخب کئے گئے ہیں جب کہ 8 پر یہدوت ہتورات پارٹی فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس فتح کے لئے اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نتن یاہو نے بڑی محنت کی تھی کیونکہ اس جیت سے نہ صرف ان کی پارٹی کا سیاسی مستقبل وابستہ تھا بلکہ خود نتن یاہو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے سے تبھی بچ سکتے تھے جب وہ اس بار کے انتخابات میں کامیاب ہوکر حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی اونچی عدالت نے کرپشن معاملہ میں نتن یاہو کو مجرم قرار دیا تھا۔ اس جیت کو یقینی بنانے کے لئے پہلی حکمت عملی نتن یاہو نے اگست کے مہینہ میں بنائی تھی جس کے تحت انہوں نے تین چھوٹی چھوٹی انتہا پسند مذہبی پارٹیوں کو اپنے ساتھ شامل کیا تھا تاکہ دائیں بازو کی سیاست کو مضبوط سے مضبوط تر کرکے اسرائیل کے مذہبی جنونیوں کے ووٹ کو بکھرنے سے بچایا جائے اور ان انتہا پسند پارٹیوں کو اپنی اگلی متوقع حکومت میں جگہ دے سکیں۔ نتن یاہو کی یہ حکمت عملی کامیاب ہوگئی اور یہ یہودی تشدد پسند جماعتیں حالیہ انتخابات میں اپنے حامیوں کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئیں کہ ان کا مستقبل انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہی محفوظ رہے گا۔ ان انتہا پسند جماعتوں میں سب سے معروف نام مذہبی صہیونی جماعت کا ہے جس کی قیادت ایتمار بن گویر کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ شخص کھلے عام تشدد کی دعوت دیتا ہے اور فلسطینیوں کے خلاف اپنی شدید نفرت کے لئے مشہور ہے۔ نتن یاہو کی حکومت میں اس کو بڑی اہمیت حاصل رہے گی کیونکہ اس کی پارٹی کو 14 سیٹیں ملی ہیں۔ باقی پارٹیاں بھی دقیانوسیت اور مذہبی قومیت کی علمبردار ہیں اور ان کی کوشش ہوگی کہ اسرائیل کا رْخ پورے طور پر یہودی شریعت کی طرف موڑ دیا جائے جس میں ملک کے دستور کو بھی تفوق حاصل نہ ہو۔ یہ جماعتیں اس بات کے لئے بھی کوشاں رہی ہیں کہ پورے فلسطین کو اسرائیلی استعمار کے قبضہ میں لے لیا جائے خواہ اس مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کی نوبت کیوں نا پیش آئے۔ اسرائیل کے حالیہ انتخابات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہاں کا معاشرہ کس نہج پر سوچتا ہے اور ان کا سیاسی رجحان کتنی تیزی سے انتہا پسندی اور تشدد کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ اگر نتن یاہو کی حلیف پارٹیوں کو حمایت کرنے والوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہیں حمایت کرنے والے زیادہ تر وہ یہودی ہیں جن کا تعلق مغرب کے بجائے مشرق کے خطہ سے ہے اور بنیادی طور پر ان علاقوں اور شہروں میں بستے ہیں جو ترقی کے مدارج دھیرے دھیرے طے کر رہے ہیں۔ ایسے علاقے یا تو اسرائیل کے اطراف میں واقع ہیں یا بڑے شہروں کے حاشیہ پر قائم ہیں۔ ان کے علاوہ وہ یہودی ہیں جو حریدی یہودیت کے ماننے والے ہیں اور نو آبادیات میں ان کو بسایا گیا۔ ان میں خاص طور سے جو یہودی ویسٹ بینک، قدس اور گولان وغیرہ کے علاقوں میں بسائے گئے ہیں وہ زیادہ تشدد پسند ہیں اور آرتھوڈکس یہودی سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ماضی کے تجربوں سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مشرقی نسل سے تعلق رکھنے والے یہودی، حریدی اور نوآبادیات کے اسرائیلی ہمیشہ ہی ان پارٹیوں کو ووٹ ڈالتے رہے ہیں جن کا موقف فلسطینیوں کے تئیں سخت اور جارحانہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ طبقہ اس بات میں بھی یقین رکھتا ہے کہ دین اور سیاست کے درمیان مکمل ربط ضروری ہے گویا یہودی شریعت کا نفاذ ان کا بنیادی مطالبہ رہا ہے۔ ان کے برعکس جن لوگوں کا تعلق متوسط طبقہ سے ہے یا کوآپریٹیو بستیوں میں رہتے ہیں یا جنہوں نے حال ہی ان ممالک سے ہجرت کرکے اسرائیل کو اپنا موطن و مسکن بنایا ہے جو پہلے سوویت یونین کا حصہ ہوا کرتے تھے ایسے لوگ عام طور سے ان سیاسی پارٹیوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں جن کا سیاسی نظریہ رائٹ ونگ کے اصولوں پر ہی مبنی ہوتا ہے لیکن ان میں سیکولرزم کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ گویا اسرائیل کے حالیہ انتخابات سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ بنیادی طور پر اس بار کا مقابلہ دائیں بازو کے ہی دو جتھوں کے درمیان تھا جن میں سے ایک کا رجحان مذہبی انتہا پسندی کی طرف تھا جب کہ دوسرے کا سیاسی رجحان قدرے سیکولر تھا۔ اس میں فتح مذہبی جنونیوں کو حاصل ہوئی جب کہ بائیں بازو کی جس پارٹی نے اسرائیل کے قیام کے ابتدائی تین دہائیوں تک اس کی قیادت کی تھی وہ محض 5 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی۔ اسرائیل کی انتہا پسند پارٹیوں نے اس بار کے انتخابات میں جس ڈھنگ سے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کو اپنے سیاسی مقصد کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ فلسطینیوں کے خلاف مزید تشدد کا استعمال کیا جائے گا اور شاید تیسرے انتفاضہ کی راہ ہموار ہوگی۔ کیونکہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے بھی اس کا جواب دیا جائے گا جس سے صورتحال کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوگا۔ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اگر ایران کے نیوکلیائی ٹھکانوں کو نشانہ بناکر ہمیشہ کے لئے اس کو ختم کرنے کے پلان پر عمل در آمد کیا گیا۔ ایسی صورت میں امریکی و مغربی حمایت بھی گھٹ سکتی ہے اور مشرق وسطیٰ کا خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو خود اسرائیل کی سیکورٹی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ مستقبل میں جو حکومت نتن یاہو اپنے مذہبی جنونی حلیفوں اور آرتھوڈکس جماعتوں کے تعاون سے تشکیل دیں گے اس میں انہیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ وہ ایتمار بن گویر جیسے انتہا پسندوں کو لگام دے جس کا کردار شیخ جراح معاملہ میں بہت گھناؤنا رہا ہے۔ خود نتن یاہو کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بعض عرب لیڈران گرچہ انہیں کمزور اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کے لئے تیار نظر آتے ہوں جیسا کہ انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح میں ذکر کیا ہے لیکن وہ اس حقیقت کو نہ بھولیں کہ فلسطین کا مسئلہ عربوں کے لئے مرکزی مسئلہ ہے جس سے وقتی طور پر پہلو تہی تو کی جا سکتی ہے لیکن اس سے ہمیشہ کے لئے پلّو جھاڑنے کی غلطی کوئی نہیں کرے گا۔ اس لئے فلسطین مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے اور فلسطینی لیڈران کے ساتھ بات چیت کے لئے مثبت کوشش کا سلسلہ کرنے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ کیونکہ اس خطہ میں استحکام تب تک ممکن نہیں ہوگا جب تک فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق نہیں مل جاتے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS