حرص و ہوس اور لالچ سے دنیا بھری پڑی ہے۔دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں یہ خباثت ثلاثہ انسانی زندگی کیلئے سامان امتحان نہ بنتی ہوں۔لیکن مہذب ملکوں اور قوموں میں زندگی کے چند ایسے شعبوں کو ان سے پاک رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے جن پر انسانیت کے تحفظ کا دارو مدار ہو۔ جدید ترین سرمایہ دارانہ مغربی ممالک بھی جن کا اخلاقی وجود ہی ’مادہ‘ کے گرد گھومتا ہے وہاں بھی تعلیم و تعلّم اور طب وسائنس جیسے مقدس شعبۂ جات میں حرص و ہوس اورلالچ کی کارفرمائی محدود بلکہ مفقود ہوتی ہے۔ لیکن ہندوستان جس کے خمیرمیں ’روحانیت‘ اور ’ ادھیاتمکتا‘کادعویٰ کیاجاتا ہے، وہاں حرص و ہوس اور لالچ اوج کمال پر پہنچی ہوئی ہے۔ بلا امتیاز زندگی کے ہرشعبہ میں یہ خباثتیں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔تجارت و صنعت میں ان خباثتوں کا اپنا ایک الگ ہی رنگ ہے۔ اس شعبہ کا واحد ہدف منافع کا حصول ہے اوراس کیلئے اخلاقی حد، قانونی پابندی، ضمیر کی آوازکوئی معنی نہیںرکھتی ہے۔تجارت چاہے وہ اناجوں کی ہو یادوائوں کی ان کا اصل مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل نہیں بلکہ خطیر منافع اکٹھا کرنا ہے۔خاص کر دواسازی کی صنعت میں منافع کی ہوس کا یہ رجحان نہ صرف کروڑوں لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہاہے بلکہ ہندوستان کو پوری دنیا میں بدنام بھی کررہا ہے۔ہندوستان میں بنائی جانے والی دوائیں یا ہندوستانی کمپنیوں کی جانب سے غریب اور غیرترقی یافتہ ملکوں میں بنائی جارہی دوائوں کی بھاری مقدارجعلی اور غیرمعیاری ثابت ہورہی ہے۔
گزشتہ چند مہینوں میں کھانسی کی دواؤں میں زہریلے کیمیکل کے بھی کئی معاملات سامنے آچکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے معاملات میں دوا ہندوستان میں بنائی گئی تھی اوران دوائوں کے استعمال سے گزشتہ سال ہی گیمبیا، ازبکستان اور انڈونیشیا میں 300 سے زائد بچے کھانسی کی دوا کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔ آج حالات اتنے سنگین ہوچکے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او مسلسل انتباہ جاری کررہاہے۔
ایک بار پھر عالمی ادارہ صحت نے عراق میں فروخت ہونے والے ہندوستان میں بنائے گئے کھانسی کے سیرپ کے بارے میں عالمی انتباہ جاری کیا ہے۔ ادارہ کا کہنا ہے کہ یہ سیرپ زہریلے کیمیکلز سے آلودہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ کھانسی کے سیرپ کا ایک بیچ جو گزشتہ سال بنایا گیا تھا، وہ غیر محفوظ ہے اور اس کا استعمال خاص طور پر بچوں میں صحت کے سنگین مسائل یا موت کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے زہریلے اثرات میں پیٹ میں درد، قے، اسہال، پیشاب نہ کرپانا، سر درد، دماغی حالت میں تبدیلی اور گردے کے مسائل شامل ہیں، جو موت کا باعث بن سکتے ہیں۔ڈبلیو ایچ او نے کھانسی کے جن سیرپ کے سلسلے میں یہ انتباہ جاری کیا ہے، وہ تمل ناڈو کی کمپنی فورٹس (انڈیا) لیبارٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ نے تیار کی ہے اور ڈیبی لائف فارما پرائیویٹ لمیٹڈ انڈیا کے ذریعے تقسیم کی گئی ہے۔ یہ دوا عراق کو برآمد کی گئی تھی۔ ڈبلیو ایچ او کے انتباہ کا یہ پہلا موقع نہیں ہے، اس سے قبل بھی کئی بار عالمی ادارہ صحت ہندوستانی دواساز کمپنیوںکو متنبہ کرچکا ہے۔ اس انتباہ کے بعد ہندوستان کی حکومت نے اپنی دوا ساز کمپنیوں پر سخت قوانین نافذبھی کیے۔ اندرون ہندوستان ڈرگ کنٹرولر کے اہلکار دوا دکانوں، ڈیلروں کے یہاں چھاپے مار کر جعلی دوائیں بھی برآمد کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود جعلی دوائوں کا یہ انسانیت دشمن کاروبار کم نہیں ہورہاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جعلی دوائیں بنانے والی دواسازکمپنیاں قانون کی گرفت سے باہرہیںاور جن پر قانون کی تھوڑی بہت گرفت ہے، وہ اس سے بچنے کا راستہ نکال لے رہے ہیں۔ مجموعی طور پر ہندوستان کی دواسازی کی صنعت کے بیشتراسٹیک ہولڈرز منافع کی ہوس میں مبتلاہیں اور جعلی و غیرمعیاری دوائیں بیچ کر انسانوں کی لاشوں پر اپنے محل تعمیر کررہے ہیں۔کورونا وبا کے دوران بھی اس صنعت کامکروہ چہرہ پوری دنیادیکھ چکی ہے۔خاص کر ہندوستان میں دواسازی اور طب کی صنعت سے وابستہ تاجروں نے جس ظالمانہ اور بہیمانہ طریقہ سے عوام کا خون چوسا،وہ منظر دنیا نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا۔بڑی نجی دواساز کمپنیوں نے اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی سازبازسے بیماروں، ضعیفوں اور کمزوروں کے ساتھ ساتھ وبا سے خوف زدہ عام صحت مند آدمی کی لاچارگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیو ہیکل منافعے کمائے۔ لوگوں کو فقط دو تین دنوں کے اسپتال کا بل 25-25اور50-50لاکھ روپے دینے پر مجبور ہوناپڑا۔
دنیا کی فارمیسی کہے جانے والے ’ ادھیاتمک‘ ہندوستان میں دواساز کمپنیوں کی حرص و ہوس نے انہیں انسانیت کا قاتل بنا ڈالا ہے۔ملک تنازعات میں گھر رہا ہے اور بدنام ہورہا ہے۔ ضرورت ہے کہمنافع کی ہوس میں مبتلا دواسازکمپنیوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے اورمنافع کے خونی پنجہ میں سسک رہی بیمار انسانیت کی نجات کا سامان کیا جائے، ورنہ وشو گرو کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔
[email protected]
جعلی دوائوں کا مکروہ کاروبار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS