والدین اور بزرگوں کی کفالت قانوناًبھی لازمی: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

والدین اور بزرگ شہریوں کی کفالت نہ صرف اخلاقاً بلکہ قانوناً لازمی ہے لیکن اس کے باوجود شاید ہی کوئی دن خالی جاتا ہو جب ہمیں مختلف ذرائع سے ان کے ساتھ ہر طرح کی زیادتیوں کی خبریں نہ ملتی ہوں۔ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بہت سی مادی و نفسیاتی ضروریات ایسی ہیں جن میں انسان کی عمر کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ان امور کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے 2007 میں والدین اور بزرگ شہریوںکے لیے نان و نفقہ اوربہبود ایکٹ(The Maintenance and Welfare of Parents and Senior Citizens Act 2007) وضع کیا گیاتھا۔
اس قانون کی خاص باتیں درج ذیل ہیں:
اس قانون کے مطابق کوئی بزرگ شہری جس میں باپ یا ماں شامل ہے، جو اپنی کمائی سے یا اپنی زیر ملکیت جائیداد میں سے اپنے لیے نان ونفقہ کا انتظام کرنے کے قابل نہیں ہے وہ حسب ذیل سے نان ونفقہ طلب کرنے کیلئے درخواست دینے کا حقدار ہوگا—
٭ باپ یا ماں یا دادا دادی کی صورت میں ،اپنے ایک یا ایک سے زیادہ بچوں سے جو نابالغ نہ ہوں۔
٭ بزرگ شہری، بچوں یا رشتہ دار سے
٭بے اولاد بزرگ شہری، رشتہ دار سے
٭ والدین ،بچوں سے تا کہ وہ معمول کی زندگی گزار سکیں۔
٭ کسی بزرگ شہری کا ایسے کسی رشتہ دار سے ،جس کے پاس معقول وسائل ہوں،بشرطیکہ ایسے بزرگ شہری کی جائیداد اس کے قبضے میں ہو یا وہ ایسے بزرگ شہری کی جائیداد وراثتاً پانے والا ہو۔ اگر ایک یا ایک سے زیادہ رشتہ دار ہوں تو اس تناسب میں جس میں ایسے رشتے دار اس کی جائیداد وراثتاً پائیںگے۔
٭اس قانون کے تحت نان ونفقہ کے لیے درخواست کوئی بزرگ شہری یا ماں یا باپ دے سکتا ہے یا اگر وہ نااہل ہو تو ا س کے ذریعے مجاز کوئی دیگر شخص یا تنظیم۔ ایکٹ کے تحت قائم اپیلی ٹریبیونل بھی ازخود سماعت کرسکتا ہے اور عبوری نان ونفقہ کے لیے ماہوار الاؤنس دینے کا حکم بھی جاری کرسکتا ہے۔
٭ جب کوئی بزرگ شہری یا والدین مجموعہ ضابطہ فوجداری، 1973 کے تحت نان ونفقہ کے لیے اہل ہو اور اس ایکٹ کے تحت بھی، تو وہ ا ن دونوں قوانین میں سے صرف کسی ایک قانون کے تحت ہی نان ونفقہ کے لیے دعویٰ کرسکے گا۔
٭اس قانون کے نفاذ کے بعد اگر بزرگ شہریوں نے اپنی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد اس امید پر کسی کو منتقل کردی ہے کہ وہ ان کی ہر طرح کی ضروریات کا خیال رکھیں گے لیکن اگر وہ افراد ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں تو اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ منتقلی دھوکہ دہی اور کسی دباؤ کے تحت کرائی گئی تھی اور اس منتقلی کو باطل قرار دیا جا سکتا ہے۔ (دستاویز انتقال سے وابستہ شرائط کے لیے ملاحظہ فرمائیے سدیش چھکارا بنام رامتی دیوی والا معاملہ (2022LiveLaw (SC) 1011)
٭اس قانون میں اطفال یعنی بچوں کی تعریف میں بیٹا، بیٹی، پوتا اور پوتی کے علاوہ بہو اور داماد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کوئی نابالغ بھی اپنے ولی کے توسط سے یابے اولاد والے بزرگ کاکوئی رشتہ دار بھی ان کی نگہداشت کے لیے ذمہ دار ہوگا۔
٭ اگر وہ شخص جسے کفالت کی رقم ادا کرنے کاحکم دیا گیا ہے وارنٹ ملنے کے بعدبھی رقم جمع نہیں کرتاہے تو اسے ایک ماہ کی یا جب تک وہ رقم ادا نہ کی جائے اس مدت تک کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اس قانون میں یہ التزام بھی ہے کہ جو کوئی بزرگ شہری کی نگہداشت یا تحفظ کرنے والا، ایسے بزرگ شہری کو حتمی طور پر دستبرداری کے ارادے سے کسی جگہ پر چھوڑ دے تو وہ ایسی مدت کے لیے سزائے قید کا جو تین ماہ تک کی ہوسکتی ہے یا جرمانے کا جو پانچ ہزار روپے تک کا ہوسکتا ہے یا دونوں کا مستوجب ہوگا۔
٭ ’’نان ونفقہ‘‘ میں شامل ہیں پروقار زندگی گزارنے کے لیے خوراک، کپڑے، رہائش، طبی خدمات، علاج و تحفظ۔ والدین و بزرگ شہریوں کی بہبود میں شامل ہیں خوراک، کپڑے ،طبی نگہداشت، تحفظ ،تفریحی مراکزاور دیگر سہولیات جو بزرگ شہریوں کی جسمانی و نفسیاتی صحت کے لیے ضروری ہوں۔ ’’والدین‘‘ سے باپ یا ماں مراد ہے چاہے حیاتیاتی، متبنت یا سوتیلا باپ یا سوتیلی ماں، چاہے باپ یا ماں کوئی بزرگ شہری ہو یا بزرگ شہری نہ ہو۔’’رشتہ دار‘‘ سے بے اولاد بزرگ شہری کا کوئی قانونی وارث مراد ہے جو نابالغ نہیںہے اور جس کے قبضے میں اس کی جائیداد ہو یا جو وفات کے بعد اس کی جائیداد وراثتاً پائے گا۔ ’’بزرگ شہری‘‘ سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو بھارت کا شہری ہو اور جس نے ساٹھ سال یا اس سے زیادہ عمر مکمل کی ہو۔
٭اس قانون میں بزرگوں کے لیے گھروں کے قیام، ان کی طبی نگہداشت ،ان کی جان ومال کے تحفظ، فلاح و بہبود کے لیے تشہیر، بیداری وغیرہ کے لیے سرکاری اقدامات کی بابت التزامات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
چند مثالی اشارتی نظائر عدالت:سچن بنام جھبو مل( آر ایس اے136/2016) میںدہلی ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ اگر والدین کی ملکیت والا مکان ان کی خود حاصل کردہ جائیداد ہو تو اس میں بیٹے کو، خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ، رہنے کا کوئی قانونی حق نہیں ہے اور وہ اس مکان میں محض ان کے ر حم و کرم پر اور وہ بھی اتنی مدت تک رہ سکتا ہے جب تک وہ(والدین) اسے وہاں رہنے کی اجازت دیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگرانہوں نے خوشگوار ماحول میں ایک طویل عرصے تک رہنے کی اجازت دے دی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ یہ بوجھ پوری زندگی اٹھائیں گے ۔
ہریش ریلن بنام کوشل کماری ریلن(آر ایف اے705/2016 ) میں دہلی ہائی کورٹ نے ایک 94سالہ بیوہ عورت کواس کی بدحالی، جس کا سبب اس کے بیٹے کی نالائقی اور اس کے ساتھ ناروا سلوک تھا، کی بنیاد پر بیٹے کو اسے 20ہزار روپے ماہانہ نان ونفقہ دینے کا حکم جاری کیا۔
جسٹس شانتی سروپ دیوان بنام یونین علاقہ چنڈی گڑھ (ایل پی اے تعدادی2013/1007) والے معاملے میں یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ عدلیہ اتنی بے سہارا نہیں کہ وہ ایسے بزرگ شہری کو ، جس کے ساتھ اس کے بیٹے کا رویہ ہٹ دھرمی کا اور غیر معقول ہو اور وہ بھی ایسی صورت میں جب باپ نے بیٹے کو الگ مکان تحفے میں دیا ہو اور تجارت کرنے کے لیے مالی امداد بھی فراہم کی ہو، اس ایکٹ کے تحت راحت نہ دے سکے۔
اسی کے بر عکس کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں یہ کہا ہے کہ اگر شوہر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے تو وہ اپنی بیوی اور بیٹے کو خستہ حال و غیرمعیاری زندگی گزارنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتا۔ عدالت نے فیملی کورٹ کے ذریعہ ان دونوں کی کفالت کے لیے مقررہ رقم دو گنی کردی۔
یاد رہے کہ کسی ہائی کورٹ کا فیصلہ صرف متعلقہ ریاست کے لیے لازمی طور پر قابل پابندی نظیر ہوتا ہے، البتہ دیگر ریاستوں کی عدالتوں کے لیے ترغیبی نظیر ہو سکتا ہے۔صرف سپریم کورٹ کے فیصلے ہی ہم سب کے لیے قابل پابندی ہیں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS