ملک کی سالمیت کے لیے ووٹروں کو متحد کرنے کی ضرورت

0

عبید اللہ ناصر

بی جے پی نے آپریشن لوٹس چلاتے وقت دوستوں دشمنوں دونوں کو ایک نظر سے ہی دیکھا وہ کسی کو دوست بنا کر اور کسی کو دشمن بنا کر سیاسی منظر نامہ سے غائب کرنے پر یقین رکھتی ہے اور اپنی اس کامیابی سے سرشار ہو کر ہی پٹنہ میں اس کے قومی صدر جے پی نڈا نے بڑے تکبر سے اعلان کیا کہ2025تک سبھی علاقائی پارٹیاں ختم ہو جائیںگی اور صرف بی جے پی ہی بچے گی۔ ان کے اس تکبرانہ اعلان کی وجہ چند دنوں قبل ہی آپریشن لوٹس کی مہاراشٹر میں کامیابی تھی جب بی جے پی نے شیوسینا جیسی کاڈر والی پارٹی کی حکومت گراکے دل بدلوؤں کی مدد سے اپنی حکومت بنا لی یہی نہیں شیو سینا میں ایسی پھوٹ ڈلوائی کہ اس کا وجود ہی خطرہ میں پڑ گیا ۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کے اس آپریشن لوٹس کی کامیابی میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ساتھ ہی ساتھ سپریم کورٹ نے بھی اہم کردار اداکیا تھا جس نے اپنے فیصلوں میں اودھو ٹھاکرے گٹ کے ہاتھ پیر باندھ کر اور باغی گٹ کو کھلی چھوٹ دے کر ندی پار کرنے کو کہا جس کا منطقی انجام ہمارے سامنے ہے ۔ اس سے پہلے بی جے پی نے مدھیہ پردیش کرناٹک گوا اور منی پور میں اپنی اس مہم کو کامیاب کیا تھا لیکن راجستھان میں اشوک گہلوت کی عقل مندی اور سچن پائلٹ کی وفاداری کی بدولت کامیاب نہیں ہو سکی تھی ۔ جھارکھنڈ میں بھی اس کا بھانڈا پھوٹ گیا اور کانگریس کے تین غدار جو آسام سے غداری کی قیمت لے کر واپس آ رہے تھے کولکاتا میں دبوچ لئے گئے لیکن بی جے پی اور اس کے نام نہاد چانکیہ کو سب سے بڑا جھٹکا دیا بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے اور یہ ایسا جھٹکا ہے کہ بی جے پی اس کے نام نہاد چانکیہ اور ان کی حامی بے شرم گودی میڈیا ابھی تک اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔
در اصل نتیش کمار کو کمزور کرنے کی سازش مودی اور امت شاہ نے بہت پہلے سے شروع کر دی تھی کیونکہ بہار جیسی اہم ریاست میں وہ نمبر دو کی حیثیت پر اب مزید رہنے کو تیار نہیں تھے۔ اسمبلی الیکشن اگر چہ دونوں نے مل کر لڑا تھا لیکن نتیش کو کمزور کرنے کی غرض سے ان کے پیچھے آنجہانی رام ولاس پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان کو لگا دیا تھا جنہوں نے ان کے کور ووٹ بینک میں سیندھ لگا کر نتیش کو اچھا خاصہ نقصان پہنچا دیا اور ہمیشہ بی جے پی کے مقابلہ ایک نمبر پر رہنے والے نتیش کمار پہلی بار دوسرے نمبر پر آ گئے ۔ اس وقت ہی یہ قیاس لگایا جا رہا تھا کہ بی جے پی اس بار نتیش کو وزیر اعلی کی کرسی نہیں دے گی لیکن یہ خطرہ بھی تھا کہ نتیش آرجے ڈی کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکتے ہیں اس لئے بادل نخواستہ بی جے پی نے نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ تو بنا دیا لیکن ان کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرتی رہی۔ جس طرح مہاراشٹر میں اس کو ایک ناتھ شندے کی شکل میں ایک میر جعفر مل گیا تھا اسی طرح اس نے نتیش کمار کے معتمد خاص آر سی پی سنگھ کو اپنے پالے میں کر کے آپریشن لوٹس شروع کر دیا تھا لیکن نتیش نے بروقت کارروائی کرتے ہوے بی جے پی کو اسی کے ہتھیار سے ڈھیر کر دیا اس کے لئے ان کو سونیا گاندھی راہل گاندھی تیجسوی یادو رابڑی دیوی اور لیفٹ کی پارٹیوں سے بھر پور تعاون ملا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پورے گٹھ جوڑ کو بنانے میں سونیا گاندھی نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے ورنہ نتیش اور تیجسوی یادو میں جو تلخی تھی اسکو دیکھتے ہوے یہ گٹھ جوڑ ممکن نہیں دکھائی دے رہا تھا خاص کر زیادہ ممبران اسمبلی ہوتے ہوے بھی تیجسوی کا نائب وزیر اعلی بننے پر تیار ہو جانا آج کے دور میں عجوبہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات دھیان رکھنا ہوگی کہ نتیش نے یہ پلٹی بی جے پی سے کسی نظریاتی اختلاف اور مودی امت شاہ برانڈ سیاست سے بد دل ہو کر نہیں ماری ہے نہ ہی ملک کی کھوکھلی ہوتی معیشت بکھرتے سماجی تانے بانے غیر محفوظ ہو چکی سرحدوں آئینی اداروں کی مردنی اور آئینی جمہوریت کے لئے پیدا ہوچکے خطروں کے سدباب کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے صرف اور صرف اپنی کرسی اور اور اپنی پارٹی کو بچانے کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے ۔
نتیش نے تو کبھی ان خطروں کے خلاف لب کشائی تک نہیں کی تھی ۔گزشتہ رام نومی کے دن جس طرح بجرنگ دل کے کارکنوں نے شاید دربھنگہ میں ایک مسجد پر بھگوا جھنڈا لگا کر گھنٹوں تلواریں لہرا کے جارحانہ نعرہ بازی کی اسے نتیش کی حکومت نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا تھا مسلمانوں کے ووٹ دینے کے حق کو سلب کرنے کی جب ایک بھاجپائی رکن اسمبلی نے آواز اٹھائی تو بھی نتیش خاموش رہے تھے جبکہ اسمبلی میں تیجسوی یادو نے جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار کو اجاگر کرتے ہوے کھلے عام چیلنج کیا تھا کہ کوئی مائی کا لعل مسلمانوں سے انکے جمہوری اور آئینی حقوق نہیں چھین سکتا ۔ اس تلخ حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اگر جارج فرنانڈس اور نتیش کمار نہ ہوتے تو آج بہار میں بی جے پی دو ہندسوں میں بھی ممبران اسمبلی نہیں جتا سکتی تھی۔ بہار بھلے ہی ہندی بیلٹ کی دوسری سب سے بڑی ریاست ہو لیکن یہاں کی سیاست اتر پردیش سے با لکل مختلف ہے یہاں اب بھی ذات برادری کی سیاست فیصلہ کن ہوتی ہے جبکہ اتر پردیش گھور فرقہ پرست ریاست بن چکا ہے۔
اس حقیقت کا ادراک ہوتے ہوئے بھی اگر کانگریس ،آر جے ڈی اور لیفٹ نے باربار دھوکہ کھانے کے باوجود پھر نتیش پر اعتبار کیا تو اس کا واحد مقصد بی جے پی کے آپریشن لوٹس جیسے غیر جمہوری غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدام کو نا کام کرنا تھا تاکہ ملک کے وفاقی نظام کو بچایا جا سکے اور بی جے پی کو احساس دلایا جا سکے کہ خوف اور لالچ کی بنیاد پر جمہوری نظام اور قدروں کی پامالی کو یوں بوٹوں سے کچلا نہیں جا سکتا اسے کھیل کے اصولوں کی پابندی کرتے ہوے سیاسی بساط پر مہرے چلنے ہوں گے۔ بہار کی سیاست میں آئے اس موڑ کے بعد ایک بار پھر سیاسی لال بجھکڑوں نے آئندہ پارلیمانی الیکشن میں نتیش کو بطور وزیر اعظم پیش کرنا شروع کر دیا ہے ۔ اس سے قبل جب بنگال اسمبلی الیکشن میں ممتا بنرجی نے بی جے پی کو ہرایا تھا تو انھیں بھی اگلا وزیر اعظم بنا کر پیش کیا جا رہا تھا ۔ بہت دنوں تک گل بہیاں کرنے کے بعد جب اچانک تلنگانہ کے وزیر اعلی چندر شیکھر راؤ نے مودی کو للکارنا شروع کیا تو انہیں بھی پرائم منسٹریل میٹریل کہا جانے لگا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ کبھی نتیش کمار کو اس لائق سمجھا جاتا تھا لیکن اچانک آر جے ڈی کا ساتھ چھوڑ کر جب وہ بی جے پی کے ساتھ چلے گئے تھے تب انہوں نے اپنے لئے یہ امکان ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا تھا ۔ آج حالت یہ ہے کہ نتیش ہندستان کے سب سے ناقابل اعتماد نیتاؤں میں شمار ہوتے ہیں آنجہآنی اجیت سنگھ کی طرح جن کے بارے میں کبھی کسی کو یقین نہیں تھا کہ رات میں وہ کس کے ساتھ ہوں گے اور ان کی صبح کس کے ساتھ ہوگی۔ بیشک بہار میں نتیش کا اپنا ایک مضبوط ووٹ بینک ہے جو خواتین کے علاوہ بے حد پسماندہ ذاتوں پر مشتمل ہے اس میں اگر آر جے ڈی کا مسلم یادو اور بھومی ہر ووٹ بینک کے ساتھ ساتھ کانگریس اور لیفٹ کے روایتی ووٹ شامل ہو جائیں تو بہار سے بی جے پی کو دو چار سیٹیں نکالنا بھی دوبھر ہو سکتا ہے کیونکہ بی جے پی کے پاس لے دے کر ہندوتوا کا ہی سہارا ہے ہاں میڈیا بے انتہا دولت اور سرکاری ایجنسیاں اس کے قابو میں ہیں یہ الیکشن میں اس کے کام آ سکتے ہیں۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس پھر کسی سرکار کی تشکیل،میں زیادہ ممبران پارلیمنٹ ہوتے ہوئے بھی جونیئر پارٹنر ہونا قبول کرلے گی اور کیا دوسرے علاقائی لیڈران ممتا بنرجی ،چندر شیکھر راؤ ، اسٹالن ، شرد پوار ا ودھوٹھاکرے وغیرہ نتیش کو اپنا لیڈر تسلیم کر لیں گے ان سب سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اب تک چھپ کا روزہ رکھے نتیش کمار آر ایس ایس کے خلاف وہ نظریاتی لڑائی لڑ سکیںگے جس کی آج کے ہندستان کو سب سے زیادہ ضرورت ہے گزشتہ دس برسوں سے یہ جنگ صرف اور صرف راہل گاندھی لڑ رہے ہیں، خود ان کی پارٹی کے لیڈروں نے اور دیگر علاقائی پارٹیوں کے لیڈروں نے بھی انکا اتنا کھل کر ساتھ نہیں دیا جتنا ملک کی ضرورت اور حالات کا تقاضہ ہے ۔اس جنگ کو اب منطقی انجام پر پہنچا کر ہی ہندستان کی قومی یکجہتی علاقائی سالمیت اور آئینی جمہوریت کو بچایا جا سکتا ہے۔
بہتر ہوگا کہ فی الحال کون وزیر اعظم ہوگا اس بحث کو ترک کر کے پارٹیوں سے زیادہ ووٹروں کو جمہوریت اور جمہوری قدروں نیز ملک کی قومی یکجہتی اور سالمیت کی بقا کے لئے نظریاتی طور سے متحد کرنے کی کوشش کی جائے ۔ راہل گاندھی کی مجوزہ بھارت جوڑو یاترا اس مہم کا آغاز ہے نتیش کمار اپنے طور سے ایسی ہی کوئی اورر مہم شروع کر سکتے ہیں دوسرے علاقائی لیڈران کو بھی اپنے محدود سیاسی مفاد سے بلند ہو کر قومی یکجہتی اور آئینی جمہوریت کو لاحق خطروں کا ادراک کرتے ہوے اس مہم میں اپنے اپنے طور سے شامل ہونا چاہئے ۔ ملک اس کی ذہنی ہم آہنگی اور یکجہتی کے ساتھ ساتھ آئینی جمہوریت بچی رہے تبھی سیاسی مفاد کی جنگ لڑی جا سکتی ہے فی الحال تو آگ بجھانے کے لئے سب کو تمام مفادات سے بلند ہو کر ایک ایک بالٹی پانی ڈالنے کے لئے آگے آنا ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS