ہم سے ہمارا دیش نہ چھینو!

0

عمیر انس

ابن خلدون کے وطن تیونس میں کئی انقلابی شاعر گزرے ہیں، لیکن عرب بہاریہ کے بعد سب سے زیادہ ابوالقاسم الشابی کی یہ نظم “جب کبھی کوئی قوم جاگ جاتی ہے تو اور زندگی واپس چاہتی ہے تو قدرت خداوندی بھی اس کی حمایت کرتی ہے، لازمی ہے کہ رات کے اندھیرے بھی راستے سے ہٹ جائیں، جیلوں کی دیواریں ٹوٹ جائیں، بہت مشہور ہوا، لیکن جیسے جیسے تیونس کے سیاستدانوں نے عوام پر مایوسی اور بے سمتی مسلط کرنا شروع کیا تو مازن الشریف کا یہ دردناک قصیدہ مشہور قومی گلوکار لطفی بشناق کی آواز میں تیونس کی سیاسی فضا کو بدلنے لگا۔
میں ایک شہری ہوں، میں آپ سے ایک جواب کے لیے بھٹک رہا ہوں، ہر سڑک، ہر گوشہ اور ہر دروازہ میری منزل ہے، اب صرف میرا صبر، میری خاموشی ہی میری قناعت کا سامان ہے، ایک مشت غبار میری کل دولت ہے، میں غریبی سے خوفزدہ نہیں ہوں لیکن میں اس دھند سے خوفزدہ ہوں، میں آپکے شعور کے مر جانے سے خوف زدہ ہوں، میری اکیلی دولت میرا وطن ہے، آپ نے خوب حکومت کر لیے، خوب اس کو لوٹ لیا، لیکن اب میں ڈر رہا ہوں کہ میرا وطن مجھ سے چھین لیں گے، آپ اپنے مناصب، اپنی دولت، اپنے آسائش، اپنی دولت اپنے پاس رکھیں لیکن ہمیں صرف ہمارا وطن واپس کر دیں۔
سینکڑوں عرب اور تیونس جب اس قصیدے کو یوٹیوب پر سنتے ہیں تو انکا ضبط ٹوٹ جاتا ہے اور وہ حال وطن پر رونے لگتے ہیں، کئی بار لگتا ہے کہ ملک ہندوستان کی جشن آزادی کے موقع پر ویسا ہی خوف، مایوسی، اور بے سمتی، بے یقینی کے بادل گہرانے لگتے ہیں، کئی بار لگتا ہے کہ ملک کے سیاستدان ملک کے عوام سے ان کی ایک اکیلی دولت وطن بھی چھین لیں گے، ان کی اقتدار کی ہوس، دولت کا لالچ، اور تسلط کی بھوک اتنی شدید ہے وہ اپنے عوام سے سب کچھ چھین لینا چاہتے ہیں، یہاں تک کہ انکا وطن بھی، اسکی محبت بھی، اس کے ہونے کے احساس کو بھی، اور ایک ایسی سیاست میں دھکیل دینا چاہتے ہیں جہاں آپ ایک ہے وطن، مہاجر، بھٹکے ہوئے مسافر، اور خود کو حالات کے سختی کے حوالے کر چکے مایوس انسان کی طرح رہ رہے ہیں، اگرچہ اس ملک میں وطن پرستی کا شور پہلے سے کہیں زیادہ بلند ہے لیکن اس شور میں وطن چھیننے والوں کے نعرے زیادہ ہیں وطن بنانے والوں کے نعرے بہت دبے ہوئے ہیں۔
وطن کیا ہے؟ وطن محض ایک جغرافیہ ہوتا تو جانوروں کے بھی ملک ہوتے، پرندوں کی بھی سرحدیں ہوتیں، وطن جذبات اور احساسات کی دولت ہے جس میں ایک بیمار پڑنے والے بے گھر اور فقیر کو معلوم ہے کہ کوئی نہ کوئی اسکا علاج لیکر آئیگا، کسی بھوکے کو یقین ہوتا ہے کہ ایک دن اسے کوئی نہ کوئی کام پر رکھ لیگا اور اسے دو وقت کی روٹی عزت اور خودداری سے حاصل ہوگی، وطن اس احساس کا نام ہے جہاں آپ کے بچے کہیں بھی دور تلک چلے جائیں آپ کو انکی سلامتی، حفاظت، کا ڈر نہیں ستاتا ، جس وطن میں لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں، ایک دوسرے کو ڈراتے ہوں، مٹا دینے کی دھمکی دیتے ہوں، آپ کی بنیادی ضرورتوں کو بھی چھین لینے کی جرات کرنے والے ہوں، وہاں وطن ہونے کا احساس جاتا رہتا ہے، ہو سکتا ہے بہت سے لوگ دولتمند ہو گئے ہوں، بہت سے لوگ آگے بڑھ گئے ہوں، بہت سے لوگ طاقتور ہو گئے ہوں لیکن اگر ایک انسان بھی ایسا ہو جسے چاروں طرف خوف، نا اْمیدی، اندیشے، اور بے یقینی منڈرا رہی ہو اس وقت تک وطن مکمل نہیں ہو سکتا، جیسے تیونس کے شاعر نے وطن کے کھونے پر اپنے کرب کا اظہار کیا ہے کہیں نہ کہیں وہی رب ہندوستانی مسلمانوں میں بھی پایا جارہا ہے ، وطن کھونے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ آپ ملک بدر کر دیے جائیں بلکہ یہ بھی ہے کہ اہل وطن آپکو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں، اہل وطن آپکی حب الوطنی پر مسلسل سوالات اٹھانے کے عادی ہو جائیں، اور آپ پر اپنی حب الوطنی دوسرے شہریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدت سے ثابت کرنے کا غیر ضروری دباؤ بڑھ جائے، ملک کے موجودہ حالات میں فرقہ پرست طاقتیں ایک ایسا بیانیہ فروغ دے رہی ہیں جس سے ملک کی اکثریت کے سامنے بیس کروڑ مسلمانوں کو اجنبی، غیر ملکی، ناقابل اعتبار، مشکوک، اور معاملات کے لیے نا قابل اعتبار قرار دے دیا جائے، مسلم محلوں میں روٹی کپڑا مکان، اسپتال، اسکول، اور بازار سب سے آخر میں پہنچتے ہیں، لیکن ہر قسم کے شہری حقوق سے محروم رہنے کے باوجود وہ میڈیا کے لیے ٹی آر پی بڑھانے کا ویسا موضوع ہیں جیسے کبھی پاکستان ہوا کرتا تھا، مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ اپنے حصے کا وطن کھونے نہ دیں اور جو طاقتیں انکو اپنے ہی وطن میں بے وطن محسوس کرانا چاہتے ہیں انہیں پوری شدت سے غلط ثابت کرنے کے لیے کوشش کریں، اگر مسلمان فیصلہ کر لیں کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کی اس مہم کو ناکام بنا دیں گے تو اسکا سب سے آسان طریقہ یہ ہیکہ وہ تقسیم ہند کی زمہ داری صرف اپنے سر پر لینے کے بجائے اسکا صحیح تجزیہ عوام کے سامنے پیش کرتے رہیں، پاکستان بنانا ایک غلطی تھی لیکن یہ غلطی صرف مسلمانوں کی نہیں تھی، بلکہ مسلمانوں کو اپنا خود کا تصور وطنیت اور حب الوطنی کو عوامی سطح پر پیش کرتے رہنا ہوگا، فرقہ پرست طاقتوں کا ایسا کوئی الزام نہیں ہے جو حق اور صداقت کے معیار پر پورا اترتا ہو، پھر اتنی بڑی آبادی کو احساس جرم میں رہنے کی اور ہمیشہ دفاعی پریشر میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اسکا مطلب صرف اتنا ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں نے جن علمی اور میڈیا کے وسائل سے اپنے بیانیہ کو مسلط کیا ہے انہیں علمی اور میڈیا کے وسائل کا اور کلچرل وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کریں، ہم اپنے وطن میں دوبارہ بے گھر نہیں ہونگے، ہم اپنا وطن دوبارہ تقسیم نہیں ہونے دیں گے یہی عہد آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے، مسلمان جنگ آزادی میں قربانی دینے والے اپنے بزرگوں، اور اپنی روشن تاریخ کے ایک ایک صفحے پر پوری طاقت سے دفاع کریں، اگر آج ہم مولانا آزاد کا نام تاریخ سے مٹا دینے کی اجازت دے دیں تو کل جامع مسجد کی بھی باری آئے گی، میڈیا، فلم، شاعری، تعلیم، کسی بھی شعبے میں جہاں ہمارے بزرگوں کو ملک کے باقی قابل احترام بزرگوں کے ساتھ شامل کرنے کی بجائے الگ کیا جائے آپ سمجھ لیں کہ یہ آپکا وطن چھیننے کی ایک کوشش ہے۔

(مضمون نگار انقرہ یلدرم بیازت یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS