اقلیتی شناخت سے بالاتر ہوکر جدوجہد کی ضرورت

0

مفتی محمد اطہر شمسی

وزارت برائے اقلیتی امور کا بجٹ سال 23-2022 میں پانچ ہزاربیس کروڑ روپیہ تھا۔ جسے24-2023 کے لیے گھٹا کر تقریبا تین ہزار کروڑ کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کے واقعہ سے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو سخت مایوسی ہوتی ہے۔انھیں لگتا ہے کہ شاید زمین ان کے لیے تنگ ہو رہی ہے۔لیکن میرا خیال ہے کہ اس طرح کے واقعات سے مایوس ہونے کے بجائے ہمیں خود کو نئی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔
ایک غیر متوقع صورت حال میں مایوس ہونا دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نئی صورت حال کے مطابق خود کو بدلنے کا فن نہیں جانتے ہیں۔ تبدیلی اس کائنات کا ابدی اصول ہے۔قرآن میں ارشاد ہے ’ یہ دن ہیں جنھیں ہم بدلتے رہتے ہیں‘(آل عمران 3/140)قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ تغیر اس کائنات کی ایک ابدی حقیقت ہے۔سوال یہ ہے قرآن اس عالمگیر اصول کو کیوں بیان کر رہا ہے؟ آخر خدا کو کیا ضرورت پیش آئی کہ وہ بیان کرے کہ زمانہ میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ظاہر ہے کہ خدا خود چاہتا ہے کہ قرآن کا قاری زمانہ میں آنے والی تبدیلیوں کا گہرا شعور حاصل کرے۔اور ان زمانی تبدیلیوں کو پیش نظر رکھ کر ان کی رعایت کرتے ہوئے اپنے مستقبل کی پلاننگ کرے۔تبدیلی فطرت کا ایک قانون ہے۔ہمیں اقلیتوں کے لیے بجٹ میں ہوئی اس تخفیف کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ظاہر ہے کہ وزارت برائے اقلیتی امور کا بجٹ گھٹائے جانے کو آپ درست قرار نہیں دے سکتے۔لیکن ملک اب جس سمت میں جا رہا ہے، آپ اسے تبدیل بھی نہیں کر سکتے۔ہاں ان تبدیلیوں کو سمجھ کر آپ بدلے ہوئے حالات سے فائدہ ضرور اٹھا سکتے ہیں۔ایک وقت تھا جب اقلیتوں کو ان کی اقلیتی شناخت کے ساتھ کچھ مراعات حاصل ہو جاتی تھیں۔مگر ملک اب جس سمت میں جا رہا ہے، اقلیتوں کے لیے اپنی اقلیتی شناخت سے کسی قسم کی مراعات حاصل کرنا آسان نہیں رہ گیا ہے۔حکومت کسی بھی پارٹی کی آئے، ملکی حالات کی یہ سمت آسانی سے تبدیل ہونے والی نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ اقلیتی شناخت اگر حالات کا ساتھ نہیں دے پا رہی ہے تو ہمیں اس شناخت سے بندھے رہنے کی ضرورت کیا ہے؟ کیا اقلیتی شناخت مسلمانوں کی دینی شناخت ہے؟قرآن پر ایمان رکھنے والوں کی اصل شناخت قرآن میں مسلم بتائی گئی ہے۔ارشاد ہے ’ اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے‘ (الحج 22/78)۔قرآن میں مسلموں کا اصل رول جس سے ان کی شناخت متعین ہوگی وہ یہ بتایا گیا ہے کہ ’ ہم نے تمہیں اُمت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن سکو۔‘(البقرۃ 2/143)یعنی مسلموں کا اصل رول یہ ہے کہ وہ ایک ایسا گروہ ہوں گے جو ہمیشہ انصاف کی گواہی دے گا۔اور ہر نا انصافی کے خلاف حق کے گواہ ہوں گے خواہ یہ نا انصافی کسی بھی فرد یا قوم کے ساتھ کیوں نہ ہو۔یہاں تک کہ اگر غریبوں اور امیروں کے درمیان وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ ہو تو قرآن پر ایمان رکھنے والے گروہ کی ذمّہ داری ہوگی کہ وہ اپنی حکمت عملی اور پر امن جد و جہد سے امیری اور غریبی کے اس فاصلہ کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔قرآنِ پر ایمان رکھنے والوں کی اصل دینی شناخت ان کا مسلم ہونا اور امت وسط کی حیثیت سے عدل و انصاف کے لیے جد و جہد کرنا ہے نہ کہ اقلیت ہونا۔قرآن کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی گروہ کے لیے اقلیت ہونا ایک واقعہ ہے نہ کہ مسلمانوں کی کوئی دینی شناخت۔چنانچہ قرآن میں تاریخ میں بار بار پیش آنے والا یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے’کتنی ہی قلیل جماعتیں کثیر جماعتوں پر غالب آ گئیں‘ (البقرۃ 2/249)۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی عطا کی ہوئی ابدی شناخت کے علاوہ جتنی بھی پہچان ہم نے اوڑھ رکھی ہیں،وہ سب مختلف تاریخی عوامل کا نتیجہ ہیں۔جو تاریخ کے مختلف مراحل پرہم نیاختیارکرلی ہیں۔مسلم اور امت وسط ہونے کے علاوہ کسی شناخت کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے۔ہاں،کسی بھی انسان کی دینی شناخت کے علاوہ متعدد شناخت ہوتی ہیں۔جو ہے حد قیمتی ہوتی ہیں، جن میں سے کچھ کا تحفظ بے حد لازمی ہوتا ہے اور کچھ سے چھٹکارا ضروری ہو جاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ آپ جس ملک میں رہتے ہیں، وہاں آپ کی حیثیت صرف یہ نہیں ہے کہ آپ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔یہاں آپ کی کئی شناختیں ہو سکتی ہیں مثلا ایک مرد، خاتون، ذہین طالب علم وغیرہ۔ہر شناخت کے ساتھ مختلف حکومتی اسکیمیں،وظائف،اور مواقع بھی متعلق ہیں۔مثلا ایک خاتون طالب علم ہونے کی حیثیت سے ملنے والی متعدد اسکالرشپ، ایک غریب طبقہ سے تعلّق رکھنے کی بنا پر ملنے والے متعدد وظائف وغیرہ۔ان تمام اسکیموں اور حکومتی اسکالرشپ سے ایک بڑی تعداد میں مسلمان صرف اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنی اقلیتی شناخت سے باہر جا کر نہیں سوچ پاتے اور محض اقلیتی اسکیموں کے لیے ہی تگ ودو کرتے ہیں۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ نہیں کہ ملک میں اقلیت ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کے لیے مواقع مسلسل کم ہوتے جا رہے ہیں اور آیندہ بھی یہی تسلسل متوقع ہے۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہمیں اس ملک میں جو کچھ بھی ملا ہے کیا وہ صرف اقلیت ہونے کی حیثیت سے ملا ہے یا پھر دِیگر حیثیتوں سے؟ آپ کو ملنے والا ہندوستانی پاسپورٹ کیا آپ کو اقلیت ہونے کی حیثیت سے ملا ہے؟کیا آپ کو ملنے والا ووٹنگ کا حق آپ کے اقلیت ہونے کی وجہ سے ملا ہے؟ پردھان منتری آواس یوحنا کے تحت بے شمار مسلمانوں کو ملنے والی رہائشی امداد کیا ان کے اقلیت ہونے کی وجہ سے ان کو ملی ہے؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کے جواب نفی میں ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خود اس مضمون کے مسلم قارئین اپنی دِیگر حیثیتوں سے ملک بھر میں موجود بے شمار مواقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔آخر ایسا کیوں نہ ہو کہ مسلمان اپنی دِیگر حیثیتوں کو بھی دریافت کریں اور ان حیثیتوں سے ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی اور ملک کی تعمیر کریں؟ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کے ارباب علم و دانش مسلموں کو ان مواقع سے با خبر کریں جو انھیں دیگر حیثیتوں سے دستیاب ہیں۔ راقم الحروف اس مضمون میں صرف اسکیموں اور وظیفوں کی نہیں بلکہ وظائف اور اسکیموں سے آگے بڑھ مواقع کی بات کر رہا ہے۔مثلا ایک ہندوستانی بزنس مین ہونے کی حیثیت سے آپ کو مختلف مواقع حاصل ہو سکتے ہیں لیکن ایک اقلیتی تاجر ہونے کی بنا پر شائد آپ کو کوئی اسکیم سرے سے نہ ملے۔حکومتیں اقلیتی بجٹ کو کم یا ختم کر سکتی ہیں لیکن کوئی حکومت اس دنیا میں موجود مواقع کو ختم کرنے پر قادر نہیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اقلیتی ذہنیت سے باہر آئیں اوراپنی دِیگر حیثیتوں سے واقفیت حاصل کر کے اپنی تعمیر کریں۔سوال یہ نہیں ہے کہ اقلیتوں کے لیے بجٹ کا کم کرنا صحیح ہے یا غلط۔ظاھر یہ ہے کہ ملک پر اقلیتوں کا بھی بالکل مساوی حق ہے بلکہ اقلیتیں اکثر اوقات مراعات اور تحفظ کی مستحق ہوتی ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا آپ ملک کی موجودہ سمت کو تبدیل کر سکتے ہیں؟ جس چیز کو آپ تبدیل نہیں کر سکتے،کیوں نہ ایسا ہو کہ ہم اسے ایک حقیقت سمجھ کر اپنی اسٹریٹیجی تیار کریں۔وقت کا تقاضہ ہے کہ اب مسلمان اپنی اقلیتی شناخت کے بجائے دینی لحاظ سے ”امت وسط” اور ملکی لحاظ سے اپنی ”ہندوستانی شہری” کی شناخت پر فوکس کریں۔
(مضمون نگار القرآن اکیڈمی،کیرانہ کے ڈائریکٹر ہیں)
[email protected]

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS