ذہنیت بدلنے کی ضرورت

0

حالات کے مطابق قانون بنا دیے جاتے ہیں مگر وہ حالات میں مثبت تبدیلی نہیں لا پاتے، کیونکہ قانون سازی کے ساتھ لوگوں کی ذہنیت بدلنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اس پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں مذہب کے نام پر، کہیں نسل یا ذات کے نام پر، کہیں زبان یا ثقافت کے نام پر تو کہیں خطے کے نام پر تعصب کو پنپنے کا موقع ملتا ہے اور کئی بار تو چیزیں گڈ مڈ سی ہوجاتی ہیں۔ مثلاً امریکہ میں نسلی تعصب بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے اور مذہبی منافرت بھی۔ اگر کوئی سیاہ فام امریکی مسلمان بھی ہے تو اس کے لیے خطرہ یہ بڑھ جاتا ہے کہ وہ کبھی بھی نسلی تفریق کرنے والوں کے نشانے پر آسکتا ہے اور اگر ان سے بچ جائے گا تو اسے مذہبی منافرت میں مبتلا لوگوں کا نشانہ بننا پڑ سکتا ہے۔ اب اگر امریکہ کی یہ حالت ہے تو فطری طور پر تشویش میں مبتلا ہونا چاہیے کہ انسانوں کو مختلف خانوں میں بانٹنے کا سلسلہ دنیا سے کیسے ختم ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان دوست لوگوں نے جارج فلوئیڈ کو ہلاک کرنے پر بڑا احتجاج کیا، مظاہروں سے یہ بتایا کہ انسان کہیں کا بھی مارا جائے، وہ کوئی بھی ہو،درد ہر انسان محسوس کرتا ہے اور اگر ایک انسان کے مارے جانے پر کوئی انسان درد محسوس نہیں کر پاتا تو اسے یہ سوچنا چاہیے کہ کیا وہ واقعی انسان ہے؟
امریکہ میں عام طور پر سیاہ فام لوگوں کے خلاف مظالم ڈھانے والوں کو سخت سزائیں نہیں سنائی جاتیں، اس لیے عالمی برادری کی نظر اس پر مرکوز ہے کہ سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھ کر انہیں مارنے کا ددرناک ویڈیو تو بہتوں نے دیکھ لیا مگر ملزم پولیس افسر ڈیرک شووین کو عبرت ناک سزا سناکر کیا امریکہ کی عدالت یہ بتائے گی کہ امریکہ میں سیاہ فام ہوں یا سفید فام، ان کے ساتھ انصاف کرنے میں تفریق نہیں کی جاتی؟ جارج فلوئیڈ کے قتل کے مقدمے کی کارروائی امریکہ کی ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس میں چل رہی ہے۔ گواہوں کی شہادتوں کو ریکارڈ کرنے کا عمل جاری ہے۔ قتل کی تفتیش پر مامور محکمہ کے سربراہ لیفٹیننٹ رچرڈ س مرمین نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ایسے وقت میں جبکہ فلوئیڈ زمین پر الٹے لیٹے ہوئے تھے اور انہیں ہتھکڑیاں بندھی ہوئی تھیں، ان کے خلاف خطرناک طاقت کا استعمال بالکل غیر ضروری تھا۔‘یہ فیصلہ عدالت کو کرنا ہے کہ ’یہ غیر ضروری‘ عمل جرم تھا کہ نہیں، کیونکہ اس کے فیصلے پر بڑی حد تک اس بات کا انحصار ہوگا کہ جو بائیڈن سیاہ فام لوگوں میں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
بات اگر امریکہ میں تعصبات کے خلاف قانون سازی کی کی جائے تو انسانوں کے مابین تفریق اگر قانون سازی سے ہی ختم ہو جاتی تو اسے اسی وقت ختم ہوجانا چاہیے تھا جب ابراہم لنکن نے 1863 میں امریکہ کے لوگوں کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے قانونی دستاویزات پر دستخط کیے تھے مگر 1865 میں ابراہم لنکن کا قتل کرکے انسانوں کی تفریق میں یقین رکھنے والے لوگوں نے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ قانون سازی سے انسانوں کوغلام سمجھنے کی ذہنیت ختم نہیں ہوگی مگر اس ذہنیت کو بدلنے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی اور اگر کوئی کہتا ہے کہ دی گئی تو یہ سوال فطری طورپر پیدا ہوتا ہے کہ پھر کامیابی کیوں نہیں ملی۔ اس سلسلے میں اگر کامیابی مل جاتی تو 100 برس بعد مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو 1963 میں یہ نہ کہنا پڑتا کہ ’میرا ایک خواب ہے‘، ان کا وہ خواب پورا ہو چکا ہوتا۔ 1968 میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو بھی مار ڈالا گیا اور ان کا خواب باقی رہا۔ براک اوباما امریکہ کے صدر بنے تو سمجھا گیا کہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگیا ہے مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ ستائے ہوئے طبقے کا ایک فرد یا چند افراد اگر بڑا عہدہ پا لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ نظام بدل گیا یا بدل جائے گا، البتہ اس سے یہ ضرور ہوتا ہے کہ تفریق کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کا ساتھ دینا لوگ کم کر دیتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ اب تفریق کے خلاف احتجاج کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ یہ بات الگ ہے کہ اس سوچ کو جھٹکا اس وقت لگتا ہے جب چونکانے والے واقعات ہوتے ہیں۔ مثلاً 2014 میں ایرک گارنر کا دم ان کے سینے میں گھونٹا گیا تھا تو اس وقت امریکہ کا صدر کوئی سفید فام لیڈر نہیں تھا، صدر سفید فام لوگوں کی کھل کر حمایت کرنے والے ڈونالڈ ٹرمپ نہیں تھے، امریکہ کے صدر براک اوباما تھے اور وہ امریکہ میں برسوں سے جڑ جمائے ہوئے نسلی تعصب کے آگے بہت بے بس نظر آئے تھے۔ یہ ناکامی امریکہ کے انسان دوست سفید فام لوگوں کی ناکامی ہے تو سیاہ فام لوگوں کی بھی ناکامی ہے کہ وہ نسلی تعصب ختم کیوں نہیں کر پائے۔ دراصل کوئی مذموم واقعہ ہونے کے بعد لوگوں کو سماجی برائی کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے جبکہ سماجی برائی کے خلاف جدوجہد ہمیشہ کرتے رہنا چاہیے۔اسی کے ساتھ قانون کو بھی اپنا کام کرنا چاہیے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سیاست قانون کو آزادی سے کام کرنے دیتی ہے؟اس کا جواب ہے، نہیں! اور یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS