خواجہ عبدالمنتقم
شیکسپیئر نے اپنے ڈرامہ ’رومیو اور جولیٹ’ میں یہ بات کہی ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے ؟لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ نام میں تو بہت کچھ رکھا ہے۔ خار کو پھول کس طرح کہا جا سکتا ہے ؟گلا ب کو اگر آ پ کسی ایسے پھول کے نام سے منسوب کردیں جس میں سے خوشبو کی جگہ بدبو آئے یا بالکل خوشبو ہی نہ آئے تو آپ گلاب کی خوشبو کہاں سے لائیں گے۔اسی طرح اگر کوئی نام ہماری مشترکہ وراثت کا جزء لاینفک بن چکا ہے اور اس سے دنیا کے 195 ممالک کے موجودہ و سابقہ شہریوں بشمول علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے موجودہ طلباو ابنائے قدیم کے جذبات وابستہ ہیں یا وابستہ رہے ہیں تو آئین کی دفعہ .51الف کی رو سے ہمارا یہ بنیادی فرض ہے کہ ہم اسے اپنی ملی جلی ثقافت کا حصہ سمجھتے ہوئے اس کا نہ صرف احترام کریں بلکہ اس کی حفاظت کر یں اور اس کی اس وراثتی حیثیت پر آنچ نہ آنے دیں اور اسے اس کی اصل شکل میں برقرار رکھیں اور اس طرح دانشور انہ رویہ اختیار کرنے والی ایک مہذب قو م ہونے کا ثبوت دیں۔
ابھی کچھ دن قبل یہ بات سامنے آئی تھی کہ علی گڑھ کی میونسپل کارپوریشن کے اراکین علی گڑھ کا نام بدلنا چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں غالباً ریاستی حکومت کو کوئی تجویز بھی بھیجی گئی ہے۔ علی گڑھ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی دو ایسے نام ہیں جن کی نوعیت لازم و ملزوم کی ہے اور یہ اس دلہن کی دو آنکھوں کی طرح ہیں کہ اگر ان میں سے ایک آنکھ کو الگ کر دیا جائے تو یہ دلہن یک چشم ہوجائے گی۔دراصل علی گڑھ کا نام بدنے کی کوشش کچھ بد نیت عوامل کی پس پردہ یونیورسٹی کا نام بدلنے کی کوشش ہوسکتی ہے لیکن ارباب حکومت اس ادارے اور اس شہر کی تاریخی و قانونی اہمیت کے مد نظر ان کے جھانسے میں آنے والے نہیں چونکہ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صرف ایک ادارہ کا نام نہیں بلکہ ایک تہذیب اور ایک علمی تحریک کا نام ہے۔ اس درسگاہ میں نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر ممالک میں شہرت پانے والے سیاست داں، سربراہ، ادیب و شعراء، فنکار، کھلاڑی وغیرہ زیر تعلیم رہے۔ان میں خان عبدالغفار خاں، ڈاکٹر ذاکر حسین، شیخ محمد عبداللہ، محمد حامد انصاری، رفیع احمد قدوائی، صاحب سنگھ ورما، ایوب خان، فضل الٰہی چودھری، خواجہ ناظم الدین، لیاقت علی خاں، ملک غلام محمد، محمد امین دیدی،محمد منصور علی اور ان کے علاوہ ادب، صحافت آرٹ، تاریخ، فلم، اسپورٹس وغیرہ کے میدان میں عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغین میں سعادت حسن منٹو، اسرارا لحق مجاز، راہی معصوم رضا، ظفر علی خاں (زمیندار)، خواجہ احمد عباس، علی سردار جعفری،حبیب تنویر، مظفر علی، نصیر الدین شاہ، جاوید اختر، عرفان حبیب، ایشوری پرساد،دھیان چند، لالہ امر ناتھ، ظفر اقبال وغیرہ جیسی اہم اور نامور ہستیاں شامل ہیں۔یہ نام محض اشارتی ہیں، ورنہ یہ فہرست تو بہت طویل ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس میں اس ادارے کے طلبا نے اپنے جوہر نہ دکھائے ہوں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور موجودہ و سابقہ طلبا کے مابین ایک ناقابل انقطاع رشتہ ہے۔اگر علی گڑھ کا نام بدلا گیا تو علیگ، علیگ برادری اور علیگیرین جیسے الفاظ کا کیا ہوگا؟ علیگ برادری کو جس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پیاری ہے اور جس کا نام آتے ہی ان کے جسم میں ایک حرارت سے پیدا ہو جاتی ہے، اسی طرح انہیں لفظ علی گڑھ سے بھی اتنا ہی پیار ہے جتنا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے۔ا س ادارے اور علی گڑھ شہر سے رشتہ کا تعلق مذہب کے حوالے سے نہیں بلکہ ادارے اور اس شہر کی محبت کے حوالے سے ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میںہر مذہب اور فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے تعلیم حاصل کی ہے اور کر رہے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ میں جس زمانے میں ماہر قانون کی حیثیت سے یوپی ایس سی کا صلاح کار تھا تو اس وقت وزارت قانون میں ایک گزیٹڈ عہدے کے لیے جو انٹرویو بورڈ بنایا گیاتھا اس کے سربراہ ایک اگروال صاحب تھے،جن کا پورا نام مجھے اس وقت یاد نہیں آرہا ہے، جو اس وقت یوپی ایس سی کے چیئرمین بھی تھے اور میں اس کا ایک رکن تھا۔ انٹرویو کے بعد اگروال صاحب نے مجھ سے معلوم کیا کہ میں نے تعلیم کس ادارے میں حاصل کی۔میںنے جواب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،دہلی یونیورسٹی و دیگر یونیورسٹیوں اور اداروں میں۔ علی گڑھ کا نام آتے ہی ان کے چہرے پر اچانک ایسی رونق آئی جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔انہوں نے کہا میں بھی اے ایم یو کا انجینئرنگ گریجویٹ ہوں۔
کبھی کبھی کسی شہر،مقام یا عمارت کا نام بدلنے سے اس کی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا۔مثال کے طور پر فیض آباد کا نام ایودھیا رکھنے سے کسی حد تک اس کی شناخت ختم نہیں ہوئی لیکن اس کے برعکس اگر علی گڑھ کا نام بدل دیا جائے تو اس کی موجودہ حیثیت کے حوالے سے شناخت ختم ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر تاج محل کا نام بدل دیا جائے تو اس کی شناخت ختم ہوجائے گی۔ اس کی ایسی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مان لیجیے اگر علی گڑھ شہر کا نام بدل دیا جائے تو علی گڑھ کے مشہور تالوں کی بات کس طرح ہوگی؟ اسی طرح مان لیجیے کہ اگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سے لفظ علی گڑھ ہٹا دیا جائے تو وہ اپنی اصل شناخت سے محروم ہو جائے گی اور جس مقصد کے لیے وہ یونیورسٹی قائم کی گئی تھی اور جس شہر میں قائم کی گئی تھی، اس کے نئے نام سے اس کا اظہار ختم ہوجائے گا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ، 1920 کی تمہید اور فقرہ وضعی میں جس نوعیت اور حیثیت کا اظہار کیا گیا ہے، وہ اس سے محروم ہو جائے گی۔ 1920میں جب یہ ایکٹ نافذ کیا گیا تو اس کی تمہید میں صاف طور پر یہ بات کہی گئی تھی کہ یہ ادارہ مسلمانوں کے ذریعہ قائم کیا جارہا ہے۔ اس ایکٹ کی تمہید کا نفس موضوع درج ذیل ہے جس سے اس شہر کی علی گڑھ اور یونیورسٹی کے حوالے سے اس کی وراثتی حیثیت کا با آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’’چونکہ یہ قرین مصلحت ہے کہ علی گڑھ میںمسلم یونیورسٹی قائم کی جائے اور سوسائٹیز ایکٹ، )1860 (تعدادی 21بابت1860 )کے تحت رجسٹر کی گئی سوسائٹیوںکو جو بالترتیب محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ اور مسلم یونیورسٹی ایسو سی ایشن کے نام سے موسوم ہیں، فسخ کیا جائے اور مذکورہ سوسائٹیوںومسلم یونیورسٹی فاؤنڈیشن کمیٹی کی تمام جائیداد اور حقوق مذکورہ یونیورسٹی کو حاصل(vest) ہوجائیںگے۔‘‘
اسی دشت( علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) سے اس علی گڑھ شہر کو پوری دنیا میں پہچان ملی ہے۔دریں صورت علی گڑھ،علی گڑھ ہی رہے گا۔نہ صرف موجودہ طلبا بلکہ ابنائے قدیم یونیورسٹی کے ترانے کے ان الفاظ اور علی گڑھ شہر کو کس طرح بھول سکتے ہیں؟
یہ میرا چمن ہے میرا چمن میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
ہر آن یہاں صہبائے کہن اک ساغر نو میں ڈھلتی ہے
کلیوں سے حسن ٹپکتا ہے پھولوں سے جوانی ابلتی ہے
جو طاق حرم میں روشن ہے وہ شمع یہاں بھی جلتی ہے
اس دشت کے گوشے گوشے سے اک جوئے حیات ابلتی ہے
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]