بچوں کا ادب، ادبا کا رجحان اور موبائل کا دور: زین شمسی

0

زین شمسی

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ترجمہ سے تخلیق کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ اصل متن ترجمہ نگار کے شکنجے میں اپنی اچھی قسمت کے لیے دعاگو ہوتا ہے۔ کتابی دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کئی کتابوں کے ترجمے اپنے اصل متن کو ہی جھوٹا اور چھوٹا ثابت کرگئے۔ وہیں متعدد کتابیں غلط ترجمہ نگاری کی وجہ سے اپنی اصلی شناخت کھو بیٹھیں۔ یوں تو ترجمہ نگاری بہت مشکل کام نہیں ہے مگر جب الفاظ کی منتقلی کے ساتھ ساتھ الفاظ کی روح کو بھی دوسری زبانوں میں منتقل کرنے کا ایماندارانہ کام ہوتا ہے تو اسے ماہرین کی نظر سے گزارنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ترجموں نے سماج، تہذیب، رسم و رواج اور مذاہب کو وسعت بخشی ہے اور دائرۂ کار میں اضافہ کیا ہے اور کسی ایک زبان میں موجود متن کو ایک محدود گلی سے نکال کر دنیا کے مختلف النوع معاشرہ میں شناخت دلائی ہے۔
عالمی ادب میں بچوں کے ادب کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس نے بچوں کا ادب نہیں لکھا، اسے کسی معنی میں ادیب تسلیم نہیں کیا گیا۔ جاپان، روس اور دیگر بڑے ممالک کے معروف ادیبوں نے بچوں کے لیے ادب تخلیق کیا اور بعد میں انہوں نے ادبی دنیا میں خود کو ثابت کیا۔ ٹرانسلیشن ورک شاپ میں اظہار خیال کرتے ہوئے این بی ٹی کے چیئر مین پروفیسر ملند سدھاکر مراٹھے نے درج بالا باتیں کہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ترجمہ نگاری ایک فن ہے اور یہ ایک ایسا فن ہے جس میں نہ صرف دوسری زبان میں موجود ادب کی جانکاری ہوتی ہے بلکہ اس کی تہذیب سے بھی آشنائی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اس مرحلے میں ایک دوسرے کے کلچر کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور مشترکہ اور سیکولر تہذیب مزید مستحکم اور پائیدار ہوتی ہے۔ این بی ٹی اس معاملہ میں مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے بھارت میں موجود متعدد زبانوں کو ترجمہ کی صورت میں ایک دوسرے کے قریب لانے کا کام کیا ہے۔ این بی ٹی کا اردو شعبہ برسوں سے بھارت اور دیگر ممالک کی بہترین کتابوں کا ترجمہ شائع کرتا رہا ہے۔ اس شعبہ کے واحد کارکن شمس اقبال کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ادیبوں نے بچوں کے ادب کو ترجیح نہیں دی۔ یوں تو اس موضوع پر متعدد سمینار اور کانفرنس منعقد کیے جاتے ہیں مگر اس موقع پر کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو بچوں کے ادب پر وافر گفتگو کر سکے۔ کچھ چنندہ لوگ ہیں جو بچوں کے ادب کی سمجھ رکھتے ہیں، جس میں ذکیہ مشہدی کانام اہم ہے۔ باقی بچوں کے ادب کے نام پر جو متون دستیاب ہیں، وہ دراصل والدین کے لیے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش کیسے کریں اور کس انداز میں کریں۔
بچوں کا ادب اس لیے بھی بھارت میں پروان نہیں چڑھ سکا کہ اسے ادب کے زمرے میں رکھنے سے ہمارے نقادوں نے ہی پرہیز کیا۔ یوں بھی اردو ادب سمٹی سمٹائی ہوئی دنیا ہے۔ اصناف ادب اردو کے کئی زاویے اب تمت بالخیر ہوچکے ہیں۔ قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، رباعی، قطعہ، داستان، نظمیں اور کئی اصناف سخن ادب کا حصہ اس لیے نہیں ہیں کہ اس پر کوئی کچھ نہیں لکھ پا رہا ہے یا پھر اب اس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہے۔ اب اردو کی دنیا ناول، افسانے اورغزل تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے میں اردو دنیا کی ہلچل تنقید و تجزیہ سے ہی جانچی اور پرکھی جا رہی ہے۔ زمانے کے بعد جاسوسی ناول کو ادب کے دائرے میں لایا گیا، مگر بے حد احتیاط کے ساتھ۔ بچوں کے ادب کا کوئی سراغ نہیں مل پایا۔ بڑے بڑے افسانہ نگاروں نے بچوں کی نفسیات پر قلم اٹھایا لیکن نقادوں نے اسے نفسیاتی تنقید یا پھر سماجی اور تاثراتی تنقید کہہ کر گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ دراصل بچوں کے لیے ادب لکھنے کی تیاری کو ہم صرف ذہنی اختراع نہیں کہہ سکتے۔ اس کے لیے باضابطہ طور پر بچوں کی نشوونما پر پینی نگاہیں رکھنی ہوں گی۔ ان کی نفسیات کو سمجھنا ہوگا۔ اس کے لیے اسٹڈی کی ضرورت ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ بچوں کے ماحول کا تجزیہ بھی درکار ہوگا۔ یہ آسان کام بالکل نہیں ہے۔
بچوں کے ادب کے بارے میں جب ادیبوں اور دانشوروں سے سوال کیجیے تو ان کے کچھ جوابات ہوں گے، جیسے بچوں کا ادب بہت ضروری ہے۔ بچوں کو ادب سکھانا چاہیے۔ اقبال اور پریم چند نے جو بچوں کے بارے میں لکھا ہے، اس سے بچوں کو آشنا کرنا چاہیے۔ بچے چونکہ مستقبل ہوتے ہیں، اس لیے انہیں ادب سے آشنائی ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ، مگر ان جوابات میں یہ واضح نہیں ہوا کہ آخر بچوں کو ہم کیسا ادب پڑھائیں اور کس کا لکھا ہوا ادب پڑھائیں۔ جب ادیبوں کی ہی قلت ہے تو بچوں میں ادب کا رجحان کیسے پیدا ہوگا؟
اس معاملہ میں ہمیں نیشنل بک ٹرسٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ دوسری زبانوں میں باضابطہ بچوں کا ادب لکھنے والے ادیبوں کی کہانیاں اور نظمیں اردو زبان میں منتقل کر رہا ہے، جس سے اردو زبان میں بچوں کی کتابوں کے ذخیرہ میں اضافہ ہو رہا ہے اور بچوں کی دلچسپیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ ترجمہ ورکشاپ اس معنی میں بھی ضروری ہے کہ اس میں شامل لوگ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی زبانوں پر بھی دسترس حاصل ہوتی ہے اور وہ سہ لسانی فارمولے پر چل کر اپنی زبان کے ساتھ ساتھ دو مزید زبانوں کی خیر خیریت دریافت کرتے رہتے ہیں۔ غضنفر، شہریار، رخشندہ روحی، جاوید عالم،احسن ایوبی، سید عشرت ظہیر، خورشید اکرم جیسے دقاق دانشوران کی حاضری میری بات کی تصدیق کرتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کے ترجمہ ورکشاپ میں مدعوئین کی فہرست کیسے بنائی گئی۔ اس سوال پر این بی ٹی کے اردوایڈیٹر شمس اقبال کہتے ہیں کہ معاملہ صرف ترجمہ کا ہے نہ کہ ادبی تخلیق کا، اس لیے کچھ ایسے ناموں کو مدعو کرنا ضروری ہے جو تینوں زبانوں، اردو، ہندی اور انگریزی زبان کو سمجھتے ہیں۔ اس لیے جامعہ، جے این یو اور دیگر انسٹی ٹیوٹ کے طلبا کو بھی مدعو کیا گیا، جو نہ صرف ترجمہ کر سکتے ہیں بلکہ ترجمہ کے فن کو سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے کچھ ناموں کی فہرست میں خان رضوان، نوشاد منظر، خاور حسن، شاہ عالم، نثاراحمد وغیرہ شامل ہیں، جنہوں نے کسی نہ کسی سطح پر اردو ادب کے ذخیرے کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
لیکن سوال اب بھی وہیں پر ہے کہ کیا اردو ادب میں بچوں کا ادب دوسری زبانوں سے ہی منتقل ہوگا یا پھر خالصتاً اردو کا اپنا بچوں کا ادب بھی اتنا ہی مؤثر کن ہوسکے گا جیسا انگریزی، روسی اور فرانسیسی زبان میں ہے۔لیکن ان سب سے زیادہ اور سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں جب بچے کتابوں سے دور اور موبائل سے نزدیک ہو چکے ہیں۔ اب بچوں کے ہاتھوں میں کتاب تھمانے سے زیادہ چیلنج موبائل چھڑانا ہو چکا ہے، ایسے میں بچوں کے ادب پر بحث زیادہ ضروری ہے یا پھر بچوں کو پڑھنے کی جانب راغب کر پانا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS