الجھتا ہی جارہا ہے سوڈان کا معمہ

0
Image: USA Today

عرب ملک سوڈان نے دو جرنلوں کے درمیان جنگ انتہائی جنگ پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ ہر روز نئے سے نئے تار جڑتے جارہے ہیں اور الجھتے جارہے ہیں۔ اس جنگ میں اس وقت او ر سنگین موڑ اختیار کرلیا جب مغربی دار فور کے گورنر خامس اباکر کو مسلح گروپ نے اغوا کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خیال رہے کہ خامس اباکر نے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ آر ایس ایف (ریپڈ سپورٹ فورس ) قتل عام کی مرتکب ہورہی ہے۔ اس انٹرویو کے نشر ہونے کے ایک گھنٹے بعد ہی ایک ویڈیو میں دکھا یاگیا کہ خامس اغوا کرلیے گئے ہیں اور ان کی گردن اور چہرے پر زخموں کے نشان صاف دکھائی دے رہے تھے۔ بعد یہ خبر آئی کہ ان کی موت ہوگئی ہے۔ دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ نے اس قتل کو کافی اہمیت دی۔ یہ واقعہ دار فور کے اس علاقے میں پیش آیا جو 2000کی دہائی میں تقریباً دو دہائی تک خانہ جنگی کی وجہ سے دنیا بھر میں بدنام تھا اور مختلف انسانی حقوق کے ادارے اور ایجنسیاں اس علاقے میں بدترین انسانی مظالم کی داستان سنا چکے او راس وقت کے سوڈان کے حکمراں العمر البشیر کو اس غریب فاقہ کشی اور بدترین قہر سے متاثرہ میں مظالم کے لیے مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔ آج ایک دہائی کے بعد پھر یہ خطہ دو طاقتور اور جدید اسلحہ سے لیس فوجوں کے درمیان انا اور بالادستی کی جنگ میں پھنسا دکھا ئی دے رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے جو اطلاعات آرہی ہیں وہ انتہائی کرب ناک ہے۔ صرف عام شہریوں کی اموات کی اطلاعات تقریباً 900کی ہیں۔
خیال رہے کہ العمر البشیر کو کئی بین الاقوامی اور ایجنسیوں اور اداروں نے اس قتل عام کے لیے مورد الزام ٹھہرایا تھا اوران کو ہیگ کی عالمی عدالت میں پیش کرنے کی بات کہی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دار فور کے قاتل کہے جانے والے العمر البشیر کو جو کہ خرطوم کے نامعلوم جیل میں بند تھے ۔ حالیہ خانہ جنگی کے پھوٹنے کے بعد پر اسرار طور پر فرار ہوگئے اور آج تک ان کا پتہ نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے۔ بہر کیف آج کے حالات دار فور اور اس کے گرد ونواح کے اس وقت کے قتل عام کی خبروں اور واقعہ کو بھلا دینے والے سانحہ سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ نے آگاہ کیا ہے کہ 14اپریل کو شروع ہونے والے اس بحران سے اب تک سوڈان کے دو ملین لوگ بے گھر ہوگئے ہیں اور حالات اس قدر خراب ہیں کہ دار فور میں انسانیت کے خلاف جرائم کی ایک ایسی لہر چل رہی ہے جس کو روک پانا مشکل سے مشکل ہوتا جار ہا ہے۔ آ ر ایس ایف پر الزام لگایا جا رہاہے کہ وہ اپنی سفاکیوں کی ریکارڈ توڑ رہی ہیں۔ ہزاروں لوگوں کو اس نے زخمی کردیا ہے۔ اس سانحہ کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ متحارب جنگجو گروپ خواتین کی عصمت دری تک کے شرمناک ظلم سے دریغ نہیں کررہے ہیں اور فوجی گھروں میں گھس گھس کر آبروئوں کی تار تار کررہے ہیں۔ خیال رہے کہ کسی بھی عرب اور مسلم ملک سے اس قسم کی شرمناک خبروں کا آنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ زیادہ تر خبریں آر ایس ایف کے لڑاکو ئوں کو عصمت دری کے جرائم سے وابستہ کررہی ہے۔ ذرائع ابلاغ اگرچہ ان خبروں کی تصدیق بغیر آر ایس ایف کے موقف کی جانے نہیں کررہے ہیں۔ مگر حالات ایسے ہیں کہ یقین کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ ان خبروں کی تردیدآر ایس ایف نہیں کررہی ہے اور اس کا کوئی تبصرہ سامنے نہیں آرہا ہے۔ دار فور کے گورنر خامس کے قتل کے لوگ قبائلی رقابت کا زاویہ تلاش کررہے ہیں۔
خامس کا قتل کسی نے بھی کیا ہو اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی خبریں آرہی تھیں چن چن کر لوگو ں کو نشانہ بنانا اور مختلف لسانی اور قبائلی طبقات کو نشانہ بنانا انتہائی تکلیف دہ اور حالات کی پیچیدگی اور سنگین کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر ایلس ویریمرو نیریٹو کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی مذموم صورت حال ہے۔ عصمت دری ، قتل، نسل کشی، بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
2000کی دہائی میں یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ خرطوم میں برسراقتدار عمر البشیر غیر عرب قبائلیوںکو نشانہ بنا رہے ہیں اور اسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک انتہائی خونخوار اور جدید اسلحہ سے لیس گروپ جنوید گروپ متحرک ہوگیا تھا ۔ یہی گروپ بعد میں اس قدر طاقتور ہوگیا کہ اس کو باقاعدہ آر ایس ایف کا نام دے دیاگیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سابق حکمراں العمر البشیر دار فور میں حالیہ بحران کو ہوا دے رہے ہیں۔ ادھر افریقہ کے کئی حکمراں اور ادارے اپنے اپنے طو رپر جنگ بندی کی کوشش کررہے ہیں۔
مشرقی افریقہ میں سرگرم بین حکومتی ادارے آئی جی اے ڈی بھی کئی لیڈر دونوں گروپوں میںمصالحت کرانے کی کوشش میں جٹ گئے ہیں مگر سعودی عرب اور امریکہ کی مصالحتی کوششوں کے ناکامی کے بعد کسی مقامی ادارے یا تنظیم کا موثر ہونا ممکن نظر نہیںآرہا ہے۔ سوڈان فوج کے سربراہ جرنل البرہان نے یہ کہہ کر تمام امیدوں پر پانی پھیر دیاہے کہ سوڈانی فوج کسی بھی باغی اور قاتل کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گی اور جرنل البرہان نے تو رپیڈ سپورٹ فورس کے سربراہ محمد ہمدان دالقلو حمیدتی سے ملنے سے انکار کردیا۔ وہ پہلے ہی حمیدی کو ان تمام مراعات ، عہدوں اور کئی پالیسی ساز اور مشاورتی اداروں کی ممبر شپ سے محروم کرچکے ہیں جو فوج کے ساتھ مل کر سوڈان میں قیام جمہوریت کے لیے کسی سیاسی پارٹیو ںکے ساتھ گفتگو کررہی تھیں۔ اس پورے سانحہ کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ فوج پر دبائو ڈال کر جمہوری اصلاحات کے لیے سرگرم سیاسی جماعتوں ، رضاکار تنظیموں اور دیگر پیشہ وارانہ تنظیموں کے افراد لاپتہ ہیں۔ ان کا مذکورہ بالا دونوں متحارب گروپوں کے ساتھ بظاہر کوئی رابطہ نظرنہیں آرہا ہے۔ یہ اس بحران کا سب سے المناک پہلو ہے۔
سوڈان براعظم افریقہ کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی تقریباً 49ملین ہے، دو ماہ سے چلی آرہی جنگ میں اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بچ چکی ہے۔ دو ملین لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر پڑوسی ملکوں میں پناہ لینے کے لیے مجبور ہیں۔ سوڈان جو کئی مرتبہ تقسیم ہوچکا ہے۔ ایک بار پھر برباد ی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ راجدھانی خرطوم جنگ کا محور بن گیا ہے۔ مغربی خطے بطور رحاص میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ البرہان اور حمیدی اس قدر طاقت ور ہیں کہ دونوں کی انا ان کی حقیقی شخصیت سے بھی بری دکھائی دیتی ہے۔ دونوں کو یقین ہے کہ وہ اپنے حریف کو نیست ونابود کردیں گے اس لیے مصالحتی کوشش لگاتار ناکام ہورہی ہیں۔ اس کا خمیازہ عام سوڈانی کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ یہ ملک ایک ناکام ریاست کے مقام کی طرف جارہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS