لَبَّيْكَ ٱللَّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ

0

عبدالعزیز
ہم سب جانتے ہیں کہ حج کے اعمال میں سب سے پہلا عمل احرام ہے۔ حاجی اسوقت تک میقات سے نہیں گزرسکتا جب تک وہ اپنا لباس اتار کر احرام نہ باندھ لے۔ یہ ایک فقیرانہ لباس ہے جس میں آدمی ایک تہمد باندھ لیتا ہے۔ ایک چادر کندھوں پر ڈالتا ہے اور سر ننگا رکھتا ہے۔ یہ اس عمل کی ظاہری صورت ہے مگر اس عمل میںمعنی کا ایک سمندر پوشیدہ ہے۔
اللہ تعالی حج شروع کرانے سے پہلے ہمارے وہ سارے لفافے اتروا دیتا ہے جو ہم نے اپنے اوپر ڈال رکھے ہیں۔ جن کے اندر ہم میں سے ہر ایک نے اپنے آپ کو اپنی اصل حقیقت سے کچھ نہ کچھ زائد بنا رکھا ہے۔ اللہ اپنے بندے سے صاف صاف کہہ دیتا ہے کہ تم بندے ہو اور بندے سے بڑھ کر تم کچھ بھی نہیں ہو۔ لہٰذا میرے دربار میں حاضر ہونا چاہتے ہو تو صرف بندے بن کر آؤ۔ تم کہیں کے وزیر ہو، رئیس ہو، بادشاہ ہو، صدر مملکت ہو، کوئی جنرل ہو، جو کچھ بھی ہو، ہوتے رہو میرے حضور میں تمہیں اپنی ساری حیثیتیں ختم کرکے صرف ایک بندے کی حیثیت سے حاضر ہونا ہوگا۔ اس طرح احرام کا یہ لباس بندہ کو بندگی کے مقام پر لاکھڑا کردیتا ہے، اس کا نشان امتیاز مٹا دیتا ہے اور ایک بڑے سے بڑے شخص کو ایک ادنیٰ آدمی کی سطح پر لے آتا ہے۔ احرام کی حالت میں حاجیوں کے کسی مجمع پر نگاہ ڈال کر دیکھیں تو آپ کو کسی طرح یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ کون اونچا اور کون نیچا ہے، کون امیر ہے کون غریب، کون وزیر ہے کون چپراسی ۔اللہ کے دربار میں سب ایک طرح کے فقیر نظر آئیں گے۔ یہ حج کی پہلی تعلیم ہے جو کوئی سیکھنا چاہے تو سیکھ سکتا ہے۔ بندگی کی شان حاصل کرنا چاہے تو حاصل کر سکتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی امیر کا جو سفر حج کے اخراجات برداشت کرسکتا ہے اگر وہ حج نہ کرے اور ساری عبادتیں کرے تو وہ اللہ کی بندگی کی شان حاصل نہیں کرسکتا ؟جی ہاں، نہیں کرسکتا۔ بندگی رب ایک فریضہ ہے جس کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کا فرمان بالکل صاف صاف ہے کہ’ ’جو شخص زاد راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکتا ہو اور پھر حج نہ کرے تو اسکا اس حالت پر مرنا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنا یکساں ہے۔‘ ‘ اللہ فرماتا ہے کہ ’’اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو گھر تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے ،جس نے کفر کیا تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘ اس کی تفسیر حضرت عمرؓ نے کی۔ آپؓ نے کہا کہ’ ’جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگادوں، وہ مسلمان نہیں ہیں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں۔‘‘
فرمان خداوندی، ارشاد نبویؐ اور صحابہ کرام ؓ کی تنبیہات سے یہی حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج کو ٹالتے رہتے ہیں اور ہزاروں مصروفیتوں کے بہانے کرکے سال پر سال یونہی گزارتے چلے جاتے ہیں ان کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہئے۔ ایسے لوگ کعبۂ یورپ کو آتے جاتے حجاز ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں ، جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے، پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا وہ قطعاً مسلمان نہیں ہیں۔
عازمین ساتھ ہر موقع ہر جگہ اس تلبیہ کو بھی دہراتے رہے۔ ’’میں حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں،میں حاضر ہوں،تیرا کوئی شریک نہیں،میں حاضر ہوں۔ یقینا ساری تعریف تیرے ہی لئے ہے۔ سارے احسانات تیرے ہی ہیں، بادشاہی سراسر تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
تلبیہ کے ایک ایک لفظ پر غور کیجئے ان کے اندر یہی معنی تو پوشیدہ ہے کہ غلام کو اس کے آقا نے طلب کیا ہے اور غلام اس کے جواب میں لبیّک لبیّک کہتا ہوا اور اپنے مالک کی تعریف کا گن گاتا ہوا چلا جارہا ہے۔ بیت اللہ کی طلبی ہوئی، اس نے عرض کیامیں حاضر ہوں، منیٰ بلایا گیا ، اس نے کہا میں حاضر ہوں،عرفات بلایا گیا، اس نے کہا میں حاضر ہوں،مزدلفہ طلب کیا گیا ، اس نے کہا میں حاضر ہوں،اس ساری دوڑ دھوپ کے دوران میں یہ الفاظ آپ زبان سے کہتے رہیں تو قانونی تقاضا پورا ہوجائیگا مگر اس تلبیہ کی اصل روح یہ ہے کہ ان الفاظ کو زبان سے ادا کرتے ہوئے اپنے دل کی گہرائیوں میں فی الواقع آپ یہ محسوس کریں کہ آپ اللہ کے بندے اور غلام ہیں۔ اس کی طرف سے آپ کی طلبی ہوئی ہے اور جہاں جہاں حاضر ہونے کی طلبی ہوتی جارہی ہے وہاں آپ لبیک لبیک کہتے ہوئے دوڑے چلے جارہے ہیں۔ اس لبیک میں ایک نشہ ہے، ایک قسم کی مستی اور سرور ہے جو ہربندۂ حق پر طاری ہوجائیگا۔
جسے یہ احساس ہو کہ اللہ کی طرف سے اس جیسی ایک ناچیز معمولی ہستی کی طلبی ہورہی ہے۔ یہ نصیب یہ قسمت اللہ اللہ لوٹنے کی جائے ہے۔
اسی طرح طواف، صفا اور مروہ کے درمیان سعی، دیگر مناسک حج ادا کرتے وقت اگر غور کریں تو سب کے اندر گہرے معنی پوشیدہ ہیں۔ سب کے سب قرب الٰہی کے ذرائع ہیں جو بندہ کو اللہ کا سچا اور پکا بندہ بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں ۔غلامی کی سب زنجیریں ایک ایک کرکے ٹوٹنی شروع ہوجاتی ہیں اور آخر بندہ خالصتاً خداوند قدوس کی ایسی غلامی اختیار کرلیتا ہے کہ اسے سارے سجدوں سے نجات مل جاتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ عبادت کے معنی اور حج کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے وہ حیران ہوکر کہنے لگتے ہیںکہ آخر یہ کیسی ’’دوڑا دوڑی‘‘ یا دوڑ دھوپ ہے جس کیلئے دنیا بھر سے کھینچ کر لاکھوں آدمیوں کو بلایا جاتا ہے؟ یہ کیا عبادت ہوئی مکہ سے اٹھے منیٰ پہنچ گئے، وہاں سے اٹھے ،عرفات جا ٹھہرے، پھر چلے اور مزدلفہ میںرات گزار دی، پھر منیٰ پہنچے اور وہاں پتھر کنکریاں ماردیں لیکن آپ ذرا سوچنے کی کوشش کریں تو آپ پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ اس ساری دوڑ دھوپ میں جو زحمت آدمی کو پیش آتی ہے، جو تکلیفیں اس کو اٹھانی پڑتی ہیں،جس مشقت اور تکلیف سے اس کو سابقہ پیش آتا ہے وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بے ٹھکانے ہوتا چلا جاتا ہے، اللہ کی راہ میںیہی سب کچھ برداشت کرنا تو اصل عبادت ہے۔ ایک فرد کیلئے ایک دن عرفات جاٹھہرنا، ایک مزدلفہ میں گزار دینا اور دو چار روز منیٰ میں ٹھہرجانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لیکن حج میں لاکھوں آدمیوںکو بیک وقت یہ دوڑ دھوپ کرنا ہوتی ہے جس میں بڑا سا بڑا آدمی بھی زحمتیں اٹھائے اور آسائشوں سے محروم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ا س سے مقصود ہر بندۂ مومن میں یہ کیفیت پیدا کرنا ہے کہ وہ اللہ کی رضا کیلئے ہر آسائش سے دستکش ہونے اور اس کی راہ میں زحمت اٹھانے کیلئے تیار ہوجائے۔یہی اللہ پر ایمان لانے کا تقاضا ہے۔یہی بندگی کے معنی ہیں اور یہی عبادت کی روح ہے۔ اس عبادت کے دوران میں جوشخص ان ساری تکلیفوں کو پورے اطمینان اور قلب و روح کی پوری مسرت کے ساتھ قبول کرتا ہے اور اپنے ساتھ کے حاجیوں کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں کرتا بلکہ سخت کشمکش کے مواقع پر بھی صبر و ضبط سے کام لیتا ہے اور خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو آرام پہنچاتا ہے وہ حج کا ثواب لوٹ لیتا ہے۔اور اس کے بر عکس جو شخص اپنی بے آرامی پر چیں بہ جبیں ہوتا ہے، ہر زحمت پر کبیدہ خاطر ہوتا ہے اور ساتھ کے حاجیوں سے آرام کی خاطر مزاحمت کرتا ہے اور لڑتا جھگڑتا ہے ،وہ حج کے ثواب کو ضائع کردیتا ہے۔ اس کے حصے میں مشقت ہی رہ جاتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS