قیصر محمود عراقی
ایک انتہائی اہم چیز ہے آئینہ، جو ہماری زندگی میں بڑا اہم کردار ادا کر تا ہے۔ دراصل آئینے کا کام ہے ہمارا اپنا آپ ہمارے سامنے کھول کر رکھنا۔ اب وہ ظاہری ہو یا باطنی، آئینہ تو آئینہ ہے۔ جس قدر ہم اسے دیکھیںگے اسی قدر یہ ہمارا اصل چہرہ ہمارے سامنے کھولتا چلا جا ئے گا۔ آئینے سے ہم اپنا ظاہری بنائو سنگھار بھی کر سکتے ہیں ،اور یہی وہ کام ہے جو شاید ہمیں سب سے زیادہ پسند ہے اور آئینے کا استعمال بھی اسی کام کے لیے سب سے زیادہ کیا جا تا ہے۔ صبح اُٹھیں تو سب سے پہلے آئینہ، کالج، اسکول، آفس ، کہیں بھی جا نا ہو تو آئینہ دیکھے بغیر جا نا نا ممکن ہے۔ کسی تقریب میں جا نا ہو تو گھنٹوں آئینہ ہمارے سامنے رہتا ہے۔ بھر بھی بار بار جہاں آئینہ مل جا ئے، بنائو سنگھار شروع ہو جا تا ہے ، یہ اکثر خواتین کے پرس میں اور مرد حضرات کی جیب میں بھی موجود ہو تا ہے۔ جب موقع ملا، نکالا اور اپنا آپ دیکھنا شروع کر دیا۔ لیکن یہ تو صرف ظاہری کام ہے آئینے کا ، جو ہم بڑے شوق سے بلکہ زندگی کے لازمی جزو کے طور پر کر تے ہیں۔ اگر آئینہ نہ ملے تو کسی سے ملنے کا دل ہی نہیں چاہتا کہ نجانے چہرہ کیسا ہوگا، کہیں کوئی داغ دھبا نہ ہو۔ لیکن اس آئینے کا انتہائی اہم کام ہمار ے اندر کی خوبصورتی، ہمارے سامنے لا نا ہے۔ ہماری شخصیت، ہمارا کردار ہمارے سامنے کھول کررکھناہے ، ہمارے کردار پر لگے داغ دھبے ہمیں دکھانا، ہمارا سچ اور جھوٹ ہمارے سامنے لانا ہماری نفرت، ہماری محبت اور ہماری عقیدت سب کھول کر رکھنا اسی آئینہ کا کام ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسی آئینے کا استعمال کر یں۔ لیکن افسوس کہ ہم آئینے کا اصل استعمال کرتے ہی نہیں اور ظاہری استعمال ضرورت سے زیادہ کر تے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں ہر شخص دوسرے کی غلطیاں گنواتا نظر آ تا ہے اور اپنی غلطیاں نہ اُسے نظر آتی ہیں اور نہ ہی کسی کے کہنے پر غلطی کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ کسی معاشرے میں بگاڑ کی بڑی وجہ یہی بات ہے۔ کیونکہ غلطی معلوم ہوگئی ہم خودمیں سدھار پیدا کریں گے، لیکن ہم آئینہ بھی اپنی پسند کے مطابق استعمال کرنے کے عادی ہیں اور ہر خاص و عام انسان اس خود غرضی میں مبتلا ہے۔ عام زندگی میں دیکھ لیں، ساس بہو کی غلطیاں گنواتی رہے گی اور بہو ساس میںنقص تلاش کر تی نظر آئے گی، شوہر بیوی کی غلطیاں تو بیوی شوہر کی، جہاں دیکھ لیں یہی حال ہے، سب دوسروں کی غلطیاں گنواتے نظر آتے ہیں اور جس کی غلطی ہو وہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہو تا۔ یہاں تک کہ یہی بات تکرار اور لڑائی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ لیکن نہ ہم ایک دوسرے کی غلطیاں گنوانا چھوڑتے ہیں اور نہ اپنی غلطی تسلیم کر تے ہیں۔ یہی صورت حال ہمارے حکمرانوں کی ہے اور کیونکہ کام بڑے بڑے تو غلطیاں بھی بڑی بڑی ، اور غلطی جتنی بڑی ، بحث و تکرار اتنی ہی زیادہ ہو تی ہے۔ اور یہ منظر خاص کر ٹاک شو ز میں سب سے زیادہ نظر آتا ہے بلکہ معلوم یوں ہوتا ہے کہ ٹاک شوز کا صرف اور صرف یہی مقصد ہے کہ تمام لوگ بیٹھ کر ایک دوسرے کی غلطیاں گنوائیں اور اپنی غلطیوں کو جھٹلائیں۔ اسی لیے آئینے کی سب سے زیادہ ضرورت ان ٹاک شوز میں نظر آتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ لوگ ان ٹاک شوز کے دوران آئینہ سامنے رکھ کر بیٹھیں اور ایک دوسرے سے کہنے سننے کے بجائے آئینے سے نظر ملا ئیں اور اس میں نظر آنے والی تمام خامیاں دیکھتے بھی جا ئیں اور ان کا جواب بھی دیتے جا ئیں۔ لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم سدھار کی طرف جا نا ہی نہیں چاہتے۔ شاید ہم جا نتے بھی ہیں کہ ہم غلط کر رہے ہیں، اس بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتے اور ہم اپنے جھوٹ کے ساتھ ان خرابیوں کو جنم بھی دیتے ہیں اور ان کی افزائش بھی کر تے ہیں۔ یہ المیہ ہے ہمارا کہ جب کبھی غلطی سامنے آنے لگے تو آنکھیں بند کر لی جا تی ہیں۔ جیسے شتر مرغ طوفان سے بچنے کے لیے اپنا سر زمین میں چھپا لیتا ہے لیکن طوفان سے بچ نہیں پاتا۔ ایسے ہی ہم بھی اپنی غلطیوں سے بچنے کے لیے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، آئینہ سے نظریں ہٹا لیتے ہیں، لیکن ہم اپنی غلطیوں کے نقصانات سے بچ نہیں سکتے۔ آج اگر ہمارے حکمراں بھی آئینے کا صحیح استعمال کریں تو یقینا اپنی غلطیوں کو سدھار سکتے ہیں۔ لیکن بات وہی آ جا تی ہے کہ ہم دوسرے کو نہیں بدل سکتے لیکن اپنے اندر ضرور تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔ ہم دوسروں کو آئینہ دکھا دکھا کر اپنا وقت بر باد کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے جبکہ ہم وہی وقت اپنے اوپر لگائیں تو بہت کچھ تبدیل کیا جاسکتا ہے، ہم اپنی اخلاقی بنیادوں کو بھی خود ہی درست کر سکتے ہیں اور معاشرے کو بھی، ہم اپنے آپ کو صحیح رکھنے کے ساتھ ہی سدھار سکتے ہیں۔ پس آئینہ اپنے ساتھ ہمیشہ رکھیں اور وہ آئینہ جو ہمارے اندر کا حال بتا دے۔ دراصل آئینہ ہمارا ضمیر ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا ضمیر جگائیں ، اپنے گھر کے معاملات درست کر نے کا آغاز کریں اور ساتھ ہی باہر کے تمام معاملات میل جول، لین دین سمیت ہر عمل کو اپنے آئینے کی مدد سے درست کر نا شروع کریں اور اپنے ملک کی تر قی کے بارے میں بھی سوچیں۔ ہم چاہیں تو ملک کو اچھے حکمراں دے سکتے ہیں اور ان بے ضمیر حکمرانوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ہم خود صحیح ہیں تو ہم سب کچھ بدل کر رکھ سکتے ہیں۔ ہم اپنے حصے کا کام کر ڈالیں اور دوسروں کے بارے میں چھوڑیں۔ غلطیوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے لیکن اپنے عمل کی درستی کے ساتھ صرف نشاندہی ہی نہیں بلکہ جہاں دوسرا غلط بھی کر تا نظر آئے وہاں ہم صحیح کر نا شروع کریں۔ ہم پہلا قدم معاشرے کے سدھار میں اُٹھانے والے بن جائیں تو یقینا اللہ پاک ہماری منزل ضرور آسان کر ے گا اور اچھائی کی راہ میں قدم بہ قدم ملانے والے ہمارے ہم قدم بن جائیں گے۔
rvr